Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
امتیاز گل - فاختہ

امتیاز گل

حمید ہنری صریرِ خامہ مطالعات: 51 پسند: 0

’’گیت کاؤں گا میں ‘‘ کا مقدمہ بڑا ہی جاندار ہے۔ اسے پڑھ کر یاد آیا کہ پنجاب کے دیہاتوں میںبعد از فصل سنبھالنے کے موسم میں آبادی سے پرے کھلیانوں میں سوانگی اور گویئے جن کو مقامی اصطلاح میں ’’راس تاریئے ‘‘ کہا جاتا ہے، لوک کہانیوں پر مبنی ڈرامے پیش کرتے ہیں۔ اس علاوہ مقامی فنکار منڈلی کی شکل میں گاؤں گاؤں پھرتے اور مشہور لوک گیتوں کے علاوہ جدید نغمے بھی گا تے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پنجاب کے کسان صوفی شاعروں کے کلام کو بڑی دلسوزی اور انہماک سے گاتے ہیں۔ اور تقریبا ً تمام دہقانوں کا مزاج اور انداز ِ زندگی یہ ہے کہ وہ فرصت کے لمحات میں دانش کی لوک داستانیں، بولیاں اور ماہیے سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو گانا اور موسیقی سننا فرصت کے ایسے کام ہیں جو انسان کی روح کو جِلااور تسکین بخشتے ہیں۔
کتاب کا مقدمہ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ حمید صاحب کو نہ صرف مسیحی گیت نگاری بلکہ پاکستان میںمسیحی موسیقی کے احیأ پر کوئی تحقیقی کام کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ میرے خیال میں مسیحی زبوروں پر بھی مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ اور اگریہ میری ادبی کوتاہ نظری نہیں تو اس کام کے لئے حمید ہنری موزوں ترین شخصیت ہیں۔
حمید ؔ ہنری کے گیت انتہائی خوبصورت تخیل اور اظہارِ خیال کا نمونہ ہیں۔ جن میں کمال درجہ کی حساسیت پائی جاتی ہے۔ کرسمس سے متعلق ان کے گیتوں میں یاسیت سے پرے امید اور صبحِ نو کی نوید ملتی ہے۔
ہم تھے تو مسافر پت جھڑ کے ، پہ اب شہر ِ نگاراں دیکھیں گے
لو تیرہ شبی بھی ختم ہوئی، اب صبحِ درخشاں دیکھیں گے
اب پاپ گھروندے پھوٹیں گے، اب دل انساں کے جاگیں گے
اب نورِ خداوند آیا ہے، ہم جلوۂ یزداں دیکھیں گے
ولادت ِ ابن ِ مریم ایک ایسا قدیم واقعہ ہے جسے ہر دور میں شاعروں نے بارہا اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ لیکن ان اشعار میں حمید ہنری نے مسیح یسوع کی پیدائش کو ایک ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو میلادِ مسیح کو ایک شاعرانہ روحانیت عطا کرتا ہے۔
دل کے آنگن میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
ابن ِ مریم کی ولادت کا صلہ ہو جیسے
دستِ قدرت نے دکھایا یہ کرشمہ اپنا
اک کنواری سے ہوا پیدا مسیحا اپنا
اس کا اندازِ تولد ہی جدا ہو جسیے
’’انداز ِ تولد ہی جدا ہو جیسے ‘‘ یہ مصرع خاص توجہ کا طالب ہے۔
مسیحی گیتوںکی روایتی مذہبیت اور مذہبی بیانئے کے بار بار دہرائے جانے والے واقعات سے ہٹ کر کرسمس سے متعلق حمید ہنری کی یہ غزل بالکل نئے اور متنوع خیالات، خوبصورت تلمیحات اور منفرد انداز سے عبار ت ہے ۔
بجز بشر ہے بھلا کس کو یہ اعزاز ملا
کہ خود نشیب سے آکر ہے اب فراز ملا
’’خود نشیب سے آکر ہے اب فراز ملا‘‘ خوبصورت اور لطف انگیز مصرع ہے۔ بار بار پڑھئے اور خط اٹھایئے۔
حمیدؔ ہنری نے اپنے گیتوں میں معرفت کے رازوں کو بیان کرنے کے لئے سلیس اور عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ اِس کے علاوہ گھسی پٹی تکرار کی بجائے نئے خیالات کا سہارا لیا ہے۔
بابِ دل آج مسیحا کے لئے باز رہے
دوست! اظہارِ عقیدت کا یہ انداز رہے
نکلا سورج تو پہاڑوں سے برف پگھلی ہے
اب تو دریا میں تموج کا وہ آغاز رہے
اس مجموعہ میں شامل بیشتر معنی خیزگیتوں میں بلا کی نغمگی ، تسلسل اور کمال کی اٹھان پائی جاتی ہے۔
یسوع مسیح کے دکھوں اور صلیبی موت پر لکھے گئے گیتوں میں جو بے ساختگی جھلکتی ہے ، وہ دراصل یسوع کی ذات ِ اقدس اور ان کی قربانی کے ساتھ شاعر کی عقیدت ، دلی وا بستگی اور ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔
اے مسیحا ترے خوں سے جیون ملا
درد تجھ کو ملا ہم کو راحت ملی
تیرے مصلوب ہونے سے عظمت ملی
اپنا جیون تیری موت کا ہے صلہ
حمید ہنری نے یسوع کی صلیبی موت کے واقعے کو اس بے مثال غزل میں انتہائی اچھوتے انداز اور نئے خیال کے ساتھ پیش کیا ہے ۔

شہید صبحوں کا ماتم روا نہیں لوگو
لہو کا جسدِ مقدس مرا نہیں لوگو
شکستِ خون کے قصے اچھالنے والو
سنو کہ خون کبھی بھی ہرا نہیں لوگو
لہو کے خلیے تو بنتے بگڑتے رہتے ہیں
حیاتِ خون کی قسمت فنا نہیں لوگو
لہو کبھی نہیں مٹتا کبھی نہیں مرتا
بدن کی موت لہو کی قضا نہیں لوگو
روایت سے ہٹ کر بالکل نئے انداز کی مذہبی شاعری صرف حمید ہنری کا ہی خاصہ ہے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ان کے کئی غیر مذہبی گیتوں اور نظموں میں فیض کا رنگِ غزل و بانکپن جھلکتا ہے۔
اس مجموعہ میں شامل موضوعاتی گیتوں اور نظموں کا انداز اور طرز ِاحساس صرف حمید ہنری ہی اپنا سکتے ہیں کیونکہ اس کے لئے حساس دل اور نازک خیالی کے ساتھ ساتھ سخنوری کی چابکدستی اور خالص پن کی ضرورت ہے جس پر حمید ہنری کو ملکہ حاصل ہے۔
جسے سمجھ کے خدا کی رضا قبول کیا
یقیں کرو وہ خدا کی رضا نہیں لوگو
ابھی نہ پوچھنا ہم سے مسافتوں کا مآل
ابھی تو دھول سے چہرہ اٹا نہیں لوگو
بہت سادہ الفاظ، تسلسل ، روانی اور معنی خیز انداز میں حمید کی شاعری اگر دکھ کی داستان سناتی ہے تواس کے ساتھ ساتھ ظلم کی سیاہ رات کے خاتمے کی نوید بھی دیتی ہے۔ نظم ’’جفاکش لوگو‘‘ ملاحضہ فرمائیے:
سکھ کی جوت جگے کی اک دن
دکھ اندھیارے چھٹ جائیں گے
اے مظلوم جفاکش لوگو
ہم اک دن غالب آئیں گے
اس بند کا تقابل کلام ِ فیض کے ان اشعار سے کیجئے:
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں
اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں
تنکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
’’جاگو۔۔۔‘‘ مزدوروں کے لئے ایک روایت شکن خوبصورت نغمہ ہے۔ درحقیقت منزل تک راہ نمائی کا یہی رستہ ہے ۔جو حمید ہنری نے اپنایا ہے۔
جا گو اے مزدور جیالو
لمبی تان کے سونے والو
صبح نئی پر تول رہی ہے
باب نیا اک کھول رہی ہے
اٹھو اٹھو اے سونے والو
جاگو اے مزدور جیالو
پستی نہیں قسمت کی لکیریں
توڑ دو ذلت کی زنجیریں
تم ہو عظمت کی تصویریں
شانِ محنت کے رکھوالو
جاگو اے مزدور جیالو
یوم مئی کے حوالے سے ’’مزدور کا دن‘‘ کمال کی خوبصورت مرصع نظم ہے جو بر جستگی ٔ خیال، روانی اور سادگی کا بے مثال نمونہ ہے۔
رامش و رقص و نور کا دن ہے
آج مزدور کا دن ہے

ہم تو تہذیب کا اک اثاثہ رہے
اس تمدن کے چہرے کا غازہ رہے
اور نصرت کا ہم اک آوازہ رہے
فخر و ناز غرور کا دن ہے
آج مزدور کا دن ہے
یہ شکاگو کا گستردہ خوں دوستو
اب دکھائے گا اپنا فسوں دوستو
کہ ظفریاب ہوگا جنوں دوستو
یعنی عہدِ جمہور کا دن ہے
آج مزدور کا دن ہے
مقدس فرانسس اسیسی‘‘ ایسے موضوع پر گیت لکھنا عمیق مطالعہ مانگتا ہے۔ حمید ہنری نے مقدس فرانسس اسیسی جیسے فقیر منش درویش کی شخصیت کا نہ صرف مطالعہ کیا ہے بلکہ ان کی صفات کو اپنے دل میں بھی محسوس کیا ہے۔
دکھیاروں کا مسیحا، فرانسس اسیسی تھا
ابنِ خدا کا پیارا، فرانسس اسیسی تھا

ہر دم خدا کے ساتھ دعا میں رہا کیا
وہ پیکرِ وفا تھا، وفا میں رہا کیا
فکر و عمل میں یکتا، فرانسس اسیسی تھا

زندہ مسیح کو اوڑھ کے پگ پگ لئے پھرا
انجیل کے پیغام کو جگ جگ لئے پھرا
روحِ رواں کلیسا، فرانسس اسیسی تھا
’’گیت گاؤں گا میں‘‘ ایک سادہ اور پر معنی عنوان کے ساتھ اسم با مسمیٰ مجموعۂ کلام ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ باذوق قارئین، مسیحی گیت نگاروں اور گلوکاروں کے لئے سمندِ شوق ثابت ہوگا۔
امتیاز گل
ایڈمینسٹریٹر
سینٹ میری پبلک اسکول، اختر کالونی، کراچی

واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید