Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
فادر فرانسس تنویر - فاختہ

فادر فرانسس تنویر

حمید ہنری صریرِ خامہ مطالعات: 91 پسند: 0

13اکتوبر 2016 ء کی شام فادر عمانوئیل عاصیؔ نے نیویارک میں ملاقات پر حمیدؔ ہنری صاحب کی کتاب ـ ـ’’گیت گائوں گا میں‘‘کا مسودہ مجھے دیا۔ فادر عاصیؔ سے مل کر اور مسودہ کی کاپی پاکر دوہری خوشی ہوئی۔ ہم دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ مصروف ِگفتگو رہے ۔ میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ جناب حمیدؔ ہنری صاحب جیسے دانشور ، ادیب اور شاعر نے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی مجھے یہ عزت بخشی کہ میں اُن کی زیرِ نظر کتاب پر اظہار ِخیال کر سکوں۔ میں نے شروع سے آخر تک حرف بہ حرف اُن کی کتاب کے مسودہ کو پڑھا اور بہت فیض پایا۔
حمیدؔ ہنری صاحب کا لِکھا ہوا مقدمہ بہت دلچسپ ، معلوماتی اور جاندار ہے جو اُن کے ادبی شعور اور اُن کی ادبی فہم و فراست اور دانشوری کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ 1۔ کرسمس کے گیت 2 ۔ مسیح یسوع کے دکُھوں کے گیت 3۔ ایسٹر کے گیت 4۔ موضوعاتی گیت۔
حمیدؔ ہنری نے الہیاتی ، ایمانی اور روحانی خیالات و احساسات کو ادبی اور فنی مہارت سے پیش کر کے نہ صرف ایمانی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ہے بلکہ ادب کی بھی خوب خدمت کی ہے۔ ایک مومن اور سچافنکار ہی سچا گیت لکھ اور گا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک کھر ا انسان ہی سچا اور اعلیٰ ادب تخلیق کر سکتا ہے کیونکہ مومن اور شاعر کا تعلق الہام اور مکاشفہ سے ہے جو ُخدا عطا کرتا ہے۔ حمیدؔ ہنری یقینا اس کسوٹی اور معیار پر پورا اترتے ہیں۔
ـ ’’گیت گائوں گامیں‘‘ ایک سادہ، عام فہم مگر گہرا اور پُر معنی عنوان ہے۔ ’’گیت گائوں گا میں‘‘ حمد و ثنا کا عمل ہے جو اس وقت تک مکمل نہیں ہوتاجب تک سب انسان اور کائنات ایک ہوکر زندگی کا گیت نہیں گاتے۔یہ عمل مکمل ہم آہنگی اور خوب صورت سمفنی(Symphony) ہے۔
’’گیت گائوں گا میں‘‘ میں کہیں دائود نبی سے منسوب الہامی زبور کی گونج سنائی دیتی ہے’’ میں خُداوند کی رحمتوں کا گیت ابد تک گائوں گا۔‘‘ (زبور 1: 89 ) تو کہیں مقدسہ مریم کے گیت کی دلکش نغمگی سنائی دیتی ہے جو لوقا انجیل نویس نے پیمبرانہ لفظوں میں سمو دی ہے۔ ( لوقا1باب 46تا 55 آیت)جہاں خُداوند کی بندی مریم خوشی سے بے ساختہ پکار اٹھتی ہے ۔ ’’ میری جان خُداوند کی بڑائی کرتی ہے۔۔۔‘‘ پھر حضرت ذکریا کا ترانہ ۔۔۔’’مبارک ہو خداوند خُدا ئے اسرائیل ‘‘( لوقا 1باب 67 تا79آیت)۔۔۔ اور اب حمید ؔہنری خُدا کی حضوری میں شخصی اور کائناتی نجات او ر زندگی کا گیت گا گا کر پکارتے جا رہا ہے ۔۔۔’’گیت گاؤ ں گا میں!‘‘
کتاب کا نام’’گیت گائوں گا میں‘‘ ایک مصوراتی عبادتی ماحول اور مقدس محفل کی خوب صورت تصویر پیش کرتا ہے۔ جس میں گیت گانے والے کے ساتھ سازندے ہیں تو مومنین اور پاسبان بھی۔ اور پھر اس مقدس اور روحانی ماحول میں خُد ا کی موجودگی اور حضوری بھی ہے ۔مغنی حمیدؔ ہنری کے لئے ساری دنیا اور کائنات مقدس محفل ہے جس میں وہ زندگی اور لطوریا کے ہر موسم کاگیت گا تا ہوا نظر آتا ہے اور اپنے ساتھ کُل کائنات کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس گیت میں شامل ہوکر خُدا کی حمد و ثناء کرے۔
انسانی تاریخ میں پہلا گیت کب ، کہا ں اور کِس نے لکھا اور گایا؟ کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ۔ Wikipedia کے مطابق قدیم گیتوں کے مجموعہ میں جو مشہور گیت رہے ہیں اُن میں تخلیق کے مصری دیو تا’’ اتین(Aten)کی شان میں لکھا گیا عظیم گیت‘‘ ، ہندوئوں کی رگ وید، عبرانیوں کے زبور( یہودیوں کے گیتوں کا مجموعہ) اور یونانی شاعر ہومر کے گیت ،جو زیادہ تر سات ق م میں لکھے گئے، شامل ہیں۔ قدیم بزرگان ِ مسیحیتWriters) (Patristicنے لاطینی اصطلا ح (Hymns) کوحمد و ثناء اور ستائشی گیتوں کے لئے استعمال کیا۔ مغربی گیتوں کی روایت میں مزامیر سے ماخوذ گیت اور کلام مقدس کے دیگر ترانوں پر مشتمل روحانی گیت شامل ہیں جو خدا اور یسوع کی حمد و ثناء کے لئے گائے جانے لگے۔ ( متی30:26 ،مرقس 16:14، اعمال25:16، 1قرنیتوں 26:14، افسیوں 19:5، کلسیوں 16:3،یعقوب 13:5،مکاشفہ 10-8: 5، مکاشفہ 5-1:14)
مسیحی گیت بالعموم جن موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ، وہ یہ ہیں: خُدا کی حمد و ثناء، یسوع مسیح کی آمد یعنی کرسمس، روزے، صلیب، صلیبی دُکھ، ایسٹر، تمام مقدسین، مقدسہ مریم ، بپتسمہ، پاک شراکت، نذرانہ، پا ک ماس کے گیت، نیزبا ئبل مقدس (پرانا اور نیا عہدنامہ)اور انجیلِ مقدس (نیا عہد نامہ) سے ماخوذزبور و گیت۔ شام کے مقدس افرائیم( 373ء) کے گیت اورپوپ سینٹ گر یگوری(3 ستمبر604 - 590 ) سے منسوب گریگورین خوش الحانی (Chants) نویں اور دسویں صدی میں مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگی۔ سولہویں صدی میں پروٹسٹنٹ اصلاح ِ کلیسیا نے گیتوں کو نیا انداز دیا۔ زبوروں کے ساتھ ساتھ نئے گیتوں کو متعارف کرانے کا سہرا انگلینڈ کے آئزک واٹس کے سر ہے ۔ پھر اٹھارویں صدی میں جان ویزلی ، چارلس ویزلی اور ان کے ساتھیوں نے میتھوڈسٹ کلیسیا کی بنیاد رکھتے ہوئے گیتوں کو نئی روح عطا کی۔ بعد ازاں کیلون مے ہیو (Calvin Mayhew) کی گاسپل گائیکی تحریک ابھری، جو اب ہر جگہ مقبول ہے۔
گیت ہندی اور اردو میں شاعری کی ایسی صنف ہے جو دوگانے (دو گلوکاروں کی صورت میں) یا کورس کی شکل میں گائی جائے۔ جس میں استھائی اور انترے ہوتے ہیں ۔ اردو گیت نگاری کی جڑیںدکنی شاعری میں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ ہندی گیت نگاری کی جڑیں بہت پہلے اودھ ، برج بھاشا اور بھگتی تحریک میں پائی جاتی ہیں۔ اردو گیت جو ہندوستانی رنگ میں رنگے ہیں وہ انگریزوں کے دور حکومت میں پروان چڑھے۔ جن میں دہلی کا درباری رنگ ہے۔ اودھ اور را جھستان کی برج بھا شا کے اثرات بھی مرتب ہیں۔
جناب حمیدؔ ہنری کے گیت اور نظمیں کلاسیکی ، روائیتی اور ہم عصری گیت نگاری کا خوبصورت اور حسین امتزاج ہے۔ اُن کی نظموں میں عصر حاضر کے مسائل اور تقاضوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ غیر منصفانہ اور غیر متوازی فرسودہ نظام اور ڈھانچے سے بغاوت اور نجات کی تحریک ملتی ہے۔ وہ ایک خوبصورت، پرُ امن اور خوشحال معاشرے اور دنیا کا خواب دیکھتے اور اس میں ہم سب کو شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں تا کہ ہم ان کے ساتھ مل کر کہیں: گیت گائیں گے ہم!

فادر فرانسس تنویر
نیویارک، امریکہ
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید