Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
عارف پرویز نقیب - فاختہ

عارف پرویز نقیب

حمید ہنری صریرِ خامہ مطالعات: 61 پسند: 0

حمیدؔ ہنری نہ صرف شاعر و ادیب بلکہ مترجم اور ترقی پسند ذہنیت کی حامل شخصیت ہیںاور وہ ان تینوں جہتوں میں خود کو منوا چکے ہیں۔ ان کی شاعری مختلف رنگوں اور لہجوں کی نما ئندگی کرتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شخص علی الصبح سورج کو طلوع ہو تا ہوئے دیکھے۔ اور اس پر داخلی اور خارجی عالم کے مظاہر کا عرفان القاء ہوتا چلا جائے ۔ حمید ؔ ہنری کے ذہن و قلم کے ایک پہلو یعنی شاعری کو لیں تو وہ غزلوں ، نظموں اور گیتوں کے زریعے آشنا حقیقتوں کی خیال افروزی کی طلسم کشائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
زیرِ نظر شاعری اُن کے مذہبی گیتوں اور نظموں کی شاعرانہ صداقت کی مظہر ہے۔ ہر چند کہ یہ تمام گیت او ر نظمیں زیادہ تر فرمائشی اور موقع و محل کی پیداوار ہیں، توبھی جداگانہ طرز احساس، فکری اپروچ اور انفرادی تخلیقی عمل ہم نشینوں اور قاری کو سرشار کرتا ہے۔ یوں بھی شاعری میں کسی نہ کسی نئے تجربے کا اطلاق ہوتا ہے اور پھر کوئی مانوس تجربہ نئے ادراک اور وجدان کے ساتھ سامنے آجاتا ہے جو شعوری وسعت کی نما ئندگی کرتے ہوئے ایک نئی لطافت سے ہم کنار کرتا ہے۔
حمیدؔ ہنری کی شاعری خوبصورت الفاظ ، تراکیب، قلبی و فکری کیفیات اور دروں بینی کے میلان کا ایک مجموعہ ہے۔جس میں ہر تجربہ پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ جس سے ان کے فکری احساس اور اُن کے برتنے میں الفاظ کی نوعیت کا تنوع دیکھاجا سکتا ہے۔
یسوع نے تراشے ہیں، امید کے پیکر
انساں کا مقدر ہے اب صبح منور
زندہ ہے مسیح، زندہ رہے گا
افلاک کی وسعت میں مہتاب نئے دیکھیں
ٹھہرے ہوئے پانی میں گرداب نئے دیکھیں
بے نور نگاہیں بھی اب خواب نئے دیکھیں
زندہ ہے مسیح، زندہ رہے گا
حمیدؔ ہنری نے اپنے لہجہ کے نئے پن کے باوجود اپنے آپ کو کلاسیک مزا ج سے الگ نہیں کیا۔ وہ رمز یہ پیرا ئے میں نئے پہلو اُجاگرکرتے ہوئے پر معنی اظہار کی کوشش میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
بجز بشر ہے بھلا کس کو یہ اعزاز ملا
کہ خود نشیب سے آکر ہے اب فراز ملا
نئے طریق سے دنیا کی اب تعمیر کرے
غریبِ شہر کے ہاتھوں کو یہ اعجاز ملا
یہ سرد رات میں تیرے ہی قرب کے صدقے
رگوں کو گرم لہو، روح کو گذار ملا
سر فلک یہ چمکتا ہوا ستارہ حمیدؔ
نجاتِ انساں کے انجام کو آغاز ملا
مندرجہ بالا اشعار میں مسیح یسوع کی آمد ِ اقدس کو جِس اچھوتے انداز میں بیان کیا گیا ہے،وہ جیتے جاگتے ، متحرک اور فعال پیکر کی آشنا ئی اور معنی خیز شناسائی کے سوا اور کیا ہے؟
حمیدؔ ہنری اپنی ذات کے اندر ہی نہیں باہر آکر بھی مشاہدہ اور تجربا ت کو قلم بند کرتا ہے اور انسانی استحصال اور پسے ہوئے طبقات کی نما ئندگی کرتے ہوئے مسیح یسوع کو ذات ِالہی کا پیکر گردانتے ہوئے استحصال ذدہ طبقے کی آخری اُمید کو تاباں و تابناک ہونے کی نوید بخشتا ہے ۔اور اسی صیغۂ اظہار کی انفرادیت اسے اپنے ہم عصروں بلکہ متاخرین سے جدا اور الگ لہجہ عطا کرتی ہے۔ جس سے حمیدؔ ہنری کے علمی وا دبی ذوق اور شعرکہنے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لگتا ہے شعر کہنے کی توفیق اور سعادت انہیں قدرت کی جانب سے عطا کردہ ہے جو اشعار کی صورت بھرپور انداز میںابھر کر سامنے آتی ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات محاورا تی اور سلاست کے کئی پیکر تراشتی ہے ۔ جس کی صداقت یوں ہے کہ :
دیکھو مسیح کے خون کی برسات ہوگئی
سورج نے منہ چھپا لیا، ظلمات ہوگئی
پھر کلوری پہ دیپ لہوکے ہیں جل اٹھے
پھر ختم رنج و غم کی سیہ رات ہوگئی
مظلوم سر بلند ہوا چڑھ کے دار پر
ظالم کو حق کے ہاتھوں بری مات ہوگئی

دل کے آنگن میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
ابن ِمریم کی ولادت کا صلہ ہو جیسے
اُس کی آمد کا یہ اعجاز ہوا چاہتا ہے
اک نئی زیست کا در باز ہوا چاہتا ہے
اِک نئے دور کاآغاز ہوا ہو جیسے
ابنِ مریم کی ولادت کا صلہ ہو جیسے
حمیدؔ ہنری کے احساسات ، خیالات اور موضوعات کا خاصہ وہ تنوع ہے جو الگ سی چاشنی رکھتا ہے اور یہی اُن کی فنی صداقت کا ثبوت ہے کہ ان کے جذبے اور خیال ایک قدرتی بہائو کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ اُن کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ شعر کی تاثیر طوالت و بسیار گوئی میں نہیں بلکہ اجمال و کفایتِ لفظی میں ہے۔
حمیدؔ ہنری نے خارجی و باطنی مشاہدات اور عرفانِ الہیٰ کے تجربات کو یکجاکر کے اشعار کی لطافت اور کشادگی کو نیا رنگ اور لہجہ عطا کر دیا ہے۔
یہ شب و روز بدلیں، نیا ہو جہاں
اک نئی ہو زمیں، اک نیا آسماں
اک اِسی آس میں ہم تو سرشار ہیں
تیرے رحم و کرم کے طلبگار ہیں

اپنے سیاہ اعمال سے ، بے ایمان پہچانا جاتا ہے
کھوتا ہے حیاتِ سرمدی ، نادان ہلاکت پاتا ہے
ایمان کا لاشہ اعمال ِبنا مُردہ دکھائی دیتا ہے
ایمان ہماری آنکھوں کواِک ایسی بینائی دیتا ہے
حمیدؔ ہنری کی شاعری میں ہر نوع کے خیالات و احساسات۔۔۔ خواہ داخلی ہوں ، معروضی ہوں، سماجی ہوں ، وارداتی ہوں ، معاشرتی ہوںیا قلبی۔۔۔ اپنا ایک الگ حسن ِبیان رکھتے ہیں۔ اور یوں زبان و بیان میں حیرت و ندرت کے علاوہ جدت طرازی اور جدید طرز ِاظہار و آہنگ کے نئے دریچے خود بخود واہوتے چلے جاتے ہیں۔ گویا یہ خیالات و احساسات کہیں بھی تذبذب اور الجھن کا شکار نہیں ہو تے ۔
جدید فکر کا حامی ہونے کے ساتھ ساتھ روایت پسندی اور عمیق مطالعہ و مشاہدہ نے حمیدؔ ہنری کو اعلیٰ تخلیقی رحجانات کا حامل سخنور ہی نہیں بلکہ سخن پرور بھی بنا دیا ہے۔
حمیدؔ ہنری کی شاعری (بائبل مقدس کے الفاظ میں) ’’بیابان میں پکارنے والے کی آواز‘‘ ہے جو گنجان آبادیوں میں گونجتی اور پکارتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ دکھ اور سکھ میں رچی بسی یہ وہ آواز ہے جو مسافروں کو منزل کی خبر دیتی ہے۔ یہ صدائے بازگشت نہیںجوواپس لوٹتی ہے۔ بلکہ ہر در و دیوار کو چیر کر مکینوں کو نئی زندگی کی نوید دیتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں معاشرتی ناہمواریوں، مجبوریوں، طبقاتی تقسیم اور محرومیوں نے انسان کو پابندِ سلاسل کر رکھا ہو، وہاں یہ آواز جینے کا حوصلہ ، امنگ اور عزم عطا کرتی ہے۔
مذہبی تناظر میں لکھا ہوا حمیدؔ ہنری کازیرِ نظر کلام دوسروں سے منفرد اس لئے ہے کہ یہ قاری کو سوچنے اور سمجھنے کی مہمیز دیتا اور نا مساعد حالات کے باوجود آگے بڑھنے کی جرات اور صلاحیت دیتا ہے۔
عارف پرویز نقیب
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید