Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
شوقِ دیدار - فاختہ

شوقِ دیدار

کنیز منظور مضامین مطالعات: 73 پسند: 0

یہ تو معلوم نہیں کہ یہ شوق کیسے ہوا البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ ڈھائ تین سال کی عمر سےہی لاحق ہوگیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے گھر میں جب کھبی گاؤں کی پرانی یادیں دہرائ جاتیں تو میرے بچپن کے چلبلے قصوں کا ذکر ضرور ہوا کرتا تھا۔امی یا باجی میں سے کوئ نہ کوئی میری بارات والی کہانی اکثر سنایا کرتی تھیں۔کہ
گاؤں میں گرمیوں کے دنوں میں گھر والے جب کام کاج سے فارغ ہو کر ،گرمی سے بچنے کےلئے مٹی کے کچے گھروں کی چھتوں پہ اونچے پیپل کے درختوں کی چھاؤں میں ،چارہائیاں بچھاکر بیٹھتے اور آرام کرنے کے ساتھ ساتھ دکھ سکھ بھی پھولتے یعنی آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں سناتے ، تو ایسے میں ڈھول تاشوں اورشہنائیاں بجنے کی آوازوں پہ خوامخواہ دل جھومنےلگتے۔ جب کسی دوسرے گاؤں جانے کے لئے کوئی بارات ہمارے گاؤں سےگزرتی تو خواتین،لڑکیاں اور بچے سب بڑی دلچسپی سے چمکتی آنکھوں اور کھلتے چہروں کے ساتھ گویا دلہن کے گھر پہنچنے سے پہلے بارات
کا استقبال کر لیا کرتے ۔اور باراتی بھی کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئےگلی میں سکوں کی سوٹ (برسات ) کے ساتھ ساتھ چھتوں پہ کھڑے لوگوں کی طرف بھی سکے ضرور پھینکتے ۔
انہی بچوں میں میں بھی شامل ہوا کرتی تھی، جسے سکے اکھٹے کرنے کی بجائے نجانے کیوں اس بات کی زیادہ فکر ہوتی تھی کہ بارات ہمارے گھر کیوں نہیں آئ۔اور میں زور زور سے آوازیں لگا کر گھر والوں سے کہتی "اماں جنج تے میری آئ سی پر اوہ ہیراں والے ٹر گئی اے"۔ یعنی اماں بارات تو میری ائ تھی لیکن وہ (ہےراں)ہیراں والے (برابر والےگاؤں )چلی گئ ہے ۔اور سارے گھر والے میری بات پہ جب کھلکھلا کر ہنس دیتے تو میں جھینپ سی جاتی کہ میں نے پتہ نہیں کیا غلط بات کہہ دی ہے ۔
جب کہ صرف مجھے ہی نہیں خوبصورت چمکیلا زرق برق لباس زیب تن کئے ،غازے سرخی پاوڈر اور کاجل سے سجی سنوری،زیورات سے لدی پھندی ، مہندی لگے ھاتھوں میں کھنکتی چوڑیاں، کنگن پہنے اور پائل کی چھن چھن سے مدھر موسیقی جگاتی دلہنیں کسے اچھی نہیں لگتیں ۔لیکن کسی کسی کو ان کا یہ روپ کچھ زیادہ ہی بھاتا ہے۔
۔مجھے اج بھی یاد ہے ہمارے محلے میں جب بھی کوئی لڑکی شادی کے دوسرے دن میکے آتی تو آس پڑوس کے ہر ایک گھر میں ملنے جاتی ۔ اس کے ساتھ اور پیچھے محلے کے بچوں کا گویا جلوس سا ہوا کرتا تھا ۔ اسے تو مانا کہ اپنی شادی کی خوشی ہوتی تھی لیکن سارے بچے نجانے کیوں اتنے جوش و خروش سے اس کے ساتھ ساتھ گھومتے تھے،گویا دلہن کو پورا پورا پروٹوکول دیا جاتا ۔
سرخ ،آتشی گلابی یا نارنجی رنگ کا ساٹن یا شنیل(ویلوٹ)کا جوڑا ،لال رنگ کی سینڈل جس پہ ویلوٹ لگا کر خوبصورت رنگوں سے پھول بوٹوں کی کڑھائ ہوتی تھی،اس کے اوپر اس کڑھائ اور شنیل کو محفوظ رکھنے کے لئے شفاف پلاسٹک لگایا جاتا تھا۔کانوں میں بڑے بڑے جھمکے ،گلے میں خوبصورت سا ہار ،کلائیوں میں درجنوں لال اور سنہری چوڑیاں، مہندی سے سرخ ہاتھ پیر اور پیروں میں پائل باندھے چھن چھن کرتی پھرتی تھی ۔اور بچے جن میں میں بھی پوری جانفشانی سے شامل ہوا کرتی تھی ، سب اسے سر سے پاوں تک اس وقت تک دیکھا کرتے جب تک کہ محلے کے سب گھروں میں مل نہ لیتی یا کوئ بچوں کو ڈانٹ کر بھگا نہ دیتا ۔
جب میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھی تو میری ایک ہم جماعت جو کہ میری بڑی اچھی سہیلی بھی تھی ۔اس کے چچا زاد بھائی کی شادی ہوئ جو کہ ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ جب اس نے اسکول میں مجھے بتایا تو میں نے فورا فرمائشیں کر ڈالی کہ میں نے بھی تمہاری بھابی دیکھنی ہے ۔ تو شاید وہ اسی دن یا پھر دوسرے دن ہی اپنے گھر لے گئ اور میں دلہن دیکھنے کے شوق میں اپنے گھر پہ بتائے بغیر ہی اس کے گھر جا پہنچی۔لیکن کچھ مایوسی بھی ہوئ کہ بھابی شاید باتھ روم میں تھی یا کچن میں،کیونکہ وہ عام دلہنوں کی طرح تیار ہی نہیں تھی۔اس پہ شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ جب ان کے کمرے میں گئے تو کمرے میں صرف اس کا بھائی موجود تھا ۔ اور میں چونکہ پہلے کبھی ان سے ملی بھی نہیں تھی ۔ جب میری سہیلی نے بتایا کہ بھائی یہ میری سہیلی بھابی کو دیکھنے آئی ہے تو بھائی نے پیار سے پاس بٹھایا اور دلہن کو آواز دی ۔وہ کمرے میں ائی تو دلہن کے روپ تھی ہی نہیں۔مجھے تو بڑی مایوسی ہوئ اور میں نے نظر یں جھکا لیں۔ بھائ صاحب کو نجانے کیا شرارت سوجھی مجھے پکڑ کر کہنے لگے "لو اب تم بھابی دیکھنے آئ ہو تو اسے دیکھو تو سہی۔"بھابی بھی پاس کھڑی مسکرا نے لگی ۔البتہ اس دن کے بعد کسی کی دلہن بھابی دیکھنے کی فرمائش پھر کبھی نہ کی۔
بڑی ہو کر اپنے گھر کی ہوئ تو میری پوری کوشش ہوتی کہ رشتے داروں یا جاننے والوں میں کہیں سے شادی کا دعوت نامہ آ جائے تو ضرور شرکت کروں،دلہن دیکھوں اور دلہا دلہن کے ساتھ تصاویر بنواوں۔میکے یا سسرال میں بھانجے بھانجی کسی کی بھی شادی ہو سہی ، خاندان میں سب سے پہلے دلہا دلہن کی دعوت کرنے کا میرا ریکارڈ برقرار رہتا ہے ۔اور میں امید بھی کرتی کہ نئ شادی شدہ لڑکی کافی حد تک دلہن لگے بھی ۔
خیر سے زندگی میں چار پانچ دلہنوں کو تیار کرنے کا موقع بھی قدرت نے دیا۔میری تو سمجھو عید ہوجاتی ۔اور میں بڑے چاو سے انہیں تیار کرتی خوشی اور فخر یوں محسوس ہوتا گویا کوئ کارنامہ سر انجام دے دیا ہو۔جب اپنی بیٹی کی شادی پہ بیوٹیشن نے اسے تیار کیا، توبیٹی سے بچھڑنے کے دکھ کے ساتھ ساتھ اسے دلہن کے روپ میں دیکھ کر میری خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا۔بیوٹیشن کو کہہ اٹھی "میری بیٹی تو عفت رحیم نہیں لگ رہی "وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔"آنٹی ساری اماوں کو اپنی بیٹیاں ماڈلز ہی لگتی ہیں "اب اسے پتہ تھوڑی تھا کہ ۔ممتا کے ساتھ میرا دلہنیں دیکھنے کا شوق بھی بول رہا ہے۔خیر سے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی تو اس کی اونچی لمبی خوبصورت دلہن جو مجھے تو شہزادی سی لگ رہی تھی ۔اسے دیکھ کر فوٹو گرافر پوچھ ہی بیٹھا "کیا یہ ماڈلنگ کرتی ہیں۔ اور، اور جب میرے سب سے چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئ تو، ایک تو فارم ہاؤس جہاں پہ حد- نظر تک سبزہ ہی سبزہ اور بیسیوں قسم کے چھوٹے بڑے ، خوبصورت پھول،جو کہ رنگ برنگے پھولوں سے لدے پودوں پہ موجود تھے ۔اس پہ گوری چٹی اور سرخ سفید، گلابی رنگت والی میم ، تہہ در تہہ جالی کے بڑے سے گھیر دار پیروں تک سفید لباس میں ملبوس،سر پہ چھوٹے چھوٹے مختلف رنگوں کے پھولوں سے بنا نازک سا تاج پہنے ۔ ہاتھوں میں نہایت حسین رنگوں کے پھولوں کا خوبصورت گلدستہ پکڑے ،بس وہ کوئ اپسرا ہی لگ رہی تھی۔ حالانکہ سفید لباس کے ساتھ بھی دلہنیں سفید موتیوں سے بنے زیورات پہنتی ہیں۔ لیکن میں نے پہلی دلہن دیکھی جو کہ گلے میں نہایت باریک سی زنجیر پہنے ہوئے تھی۔ جس میں صرف ایک سفید موتی تھا اور کانوں میں بھی درمیانے سے سائز کے ایک ایک سفید موتی پہ مشتمل ٹاپس۔ یعنی محض تین عدد موتیوں کا زیور پہن کر بھی وہ اتنی حسین پری لگ رہی تھی کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
نکاح کے سفید لباس کے بعد جب اس نے سرخ رنگ کا سنہری دھاگے اور موتیوں کی کڑھائی والا حسین ،بھاری سا گھاگھرا چولی اور خوبصورت سا دوپٹہ زیب تن کیا،ساتھ میچنگ انڈین طرز کے زیورات پہن کر سامنے آ ئی،تو نظریں اس سے ہٹ نہیں رہیں تھیں ۔گویا کسی مشرقی ملک کی انتہائ حسین ملکہ کا روپ لگ رہی تھی ۔میں نے دل ہی دل میں نظر اتارنے کےلئے دعا بھی کر ڈالی ۔
میں بھی آخر گوری کی ساس تھی۔میں نے بھی پرانی فلموں کی ہیروئن کی طرح ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہن کر بڑی بہو سے اونچا سا جوڑا بنوایا ،ہلکا سا میک اپ کیا ۔اور باہر جا کر گلاب کے جھاڑی نما پودے سے دو چھوٹے پیارے سے گلابی پھول توڑ کر جوڑے میں سجا تو لیے ۔لیکن ایکسائٹمنٹ میں یہ بھول ہی گئی کہ وہاں ان گلاب کے پھولوں میں چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی ہوتے ہیں۔اس لئے استعمال سے پہلے زرا جھٹک کر تھوڑی دیر کاغذ پر پھیلا دیتے ہیں تاکہ کیڑے نکل جائیں۔ میں نے تو بس توڑے اور بالوں میں گھسا لیے اور لگی جا کر شادی کے پنڈال میں تعریفیں سمیٹنے ۔ ابھی فخریہ انداز میں خوش ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ان ننھے منے کیڑوں نے بالوں میں چہل قدمی شروع کردی۔
اب کروں تو کیا کروں؟سر کجھا نہیں سکتی کہ بال اور اسٹائل خراب ہونے کا ڈر ۔اور تقریب سے اٹھ کر جا نہیں سکتی کہ دلہا کے اماں ابا سب سے اگلی صف میں براجمان تھے۔جائے ماند نا پائے رفتن ۔جیسےہی کسی کام سے اٹھنے کا موقع پایا فورا جا کر جوڑے سے پھول نکال کر پھینکے، جلدی جلدی سر کجھایا،بال ٹھیک کئے اور چہرے پہ نہایت پر۔۔۔۔ سکون سی مسکراہٹ سجائے پنڈال میں واپس آ گئ ۔
دلہنوں کو دیکھنے کا بچپن کا شوق خیر سے پچپن کےبعد بھی قائم و دائم ہے۔اب تک نہیں گیا تو اب کیا جائے گا ،پنجابی کہاوت ہے نا کہ "عادت پئی کڑی نوں نا جائے بڈی اڑی نوں "یعنی بچپن یا لڑکپن میں پڑ جانے والی عادت بوڑھی ہو کر کمر جھک جانے پر بھی نہیں جاتی۔حالانکہ کھبی کبھار بہت سوچنے کی کوشش بھی کی کہ یہ شوق کیسے اور کیوں ہوا ،لیکن کچھ خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئ تو سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ چلو ، نہ میرا اس سے کچھ بگڑتا ہے نہ ہی اس معصوم سے شوق سے کسی کو کوئ نقصان ہوتا ہے۔ تو شوق ہوا کرے کیا فرق پڑتا ہے۔
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید