Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
فطرت کا شاہکار خطۂ ارض - فاختہ

فطرت کا شاہکار خطۂ ارض

کنیز منظور مضامین مطالعات: 18 پسند: 0

کشمیر جنت نظیر سنا تو بہت تھا۔کیلنڈرز اور ڈاکومنٹریز میں دیکھا بھی تھا ،لیکن وہاں خود جا کر اس کی جاں فزا فضا،حد نگاہ پھیلا سبزہ، تازہ ترین و صاف ہوا،حسیںن وادیاں ، دریائے نیلم کا مدھر گیت گاتا پانی اور بادلوں سے بہت بہت بلند پہاڑ دیکھ کر ، جو خوشی، جو تازگی اور طمانیت محسوس کی وہ ناقابل بیان ہے ۔
وادیء نیلم میں ایل او سی کے مقام پر کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے ہوٹل بنےہوئے ہیں۔جہاں پر ہم لوگ تازہ خالص دودھ کی نہایت مزیدار چائے، بیسن اور پیاز کے گرما گرم لذیذ پکوڑوں سے اتے اور جاتے وقت لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ہوٹل کی چھت سے نیلگوں دریائے نیلم کی موجوں سے آنکھوں اور جسم و روح کو تازہ کرنے کے علاوہ ،دریا کے دوسرے کنارے پر مقبوضہ کشمیر بھی دیکھا وہ بھی ویسے ہی خوبصورتی کا شاہکار ہے ۔جیسے ہم دریا کے اس پار آزاد کشمیر میں کھڑے ان نظاروں سے محظوظ ہو رہے تھے۔اس طرف پاکستان اور ازاد کشمیر کے جھنڈے فضا میں ہواوں کے سنگ جھوم رہے تھے اور دریا کے دوسری جانب بھارت کےجھندے نظر آ رہے تھے ۔
وہاں کے مقامی یعنی کشمیری اس پار بھارتی جھنڈے دیکھ کر بڑے دکھ سے ذکر کرتے کہ یہ بھی ہمارا ہی حصہ ہے ۔جسکی سرحد بس دریا ہے ۔ لیکن ہم زندہ اس پار نہیں جا سکتے۔کیونکہ کھبی غلطی سے کوئ بچہ یا بڑا دریا میں ڈوب کر اس پار چلا جائے تو اس کی لاش ایل او سی کے مقام سے واپس بھیج دی جاتی ہے ۔
فطرت کے ان شاہکاروں کو دیکھنے کے لئے زرا دل گردے کی بھی ضرورت پڑتی ہے ۔کبھی پہاڑی سڑکوں پہ چڑھتے وقت آکسیجن کی کمی کے باعث سانس گھٹتی محسوس ہونے لگتی ہے ۔جو کچھ دیر گہری سانسیں لینے سے بحال ہو جاتی ہے۔ کبھی بلندی پہ چڑھتے یا نیچے اترتے ہوئے کان بند ہونے لگتے ہیں۔سینکڑوں ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں کے بالکل کنارے، سانپ کی طرح بار بار بل کھاتی سڑکوں پہ سفر کرتے بھی مجھ جیسے لوگوں کو ساری دعائیں یاد اتی چلی جاتی ہیں۔اگر کمر اور گھٹنے اجازت دیتے تو وہاں کے ماہر ترین پہاڑی ڈرائیوروں کو سلام ضرور کرتی کیا ہی جی داری اور مہارت سے مسافروں سے باتیں کرتے نہایت سکون سے گاڑیاں چلاتے رہتے ہیں۔ان پہاڑی سڑکوں پہ چند لمحوں کو تو خون خشک ہونے لگتا ہے ۔البتہ تھوڑی ہی دیر میں وہاں کی اچھوتی خوبصورتی اور نظارے انسان کو بحال کر دیتے ہیں۔اور یقین مانیں کہ ایک ہفتے میں ہی گالوں پہ لالی سی جھلکنے لگتی ہے۔
اس کے علاوہ جا بجا پہاڑوں سے بہتے جھرنوں کا تازہ ،یخ ٹھنڈا پانی پی کر جو تازگی و ٹھنڈک قلب و جاں میں اترتی ہے وہ بیان کرنا ممکن نہیں، شروع میں اتنا یخ ٹھنڈا پانی پینے سے گلا خراب ہونے کا خدشہ طاہر کیا تو میرے بیٹے کا کشمیری دوست کہے لگا ۔"آنٹی اپ بے فکر ہو یہ پانی پیئں ،اس کی ٹھنڈک گلا نہیں پکڑتی۔ اور واقعی اس کا کہنابالکل درست ثابت ہوا۔
رہی بات وہاں کے نظاروں کی ۔تو کسی ہوٹل کی پہلی یا دوسری منزل سے ،دریا اور اس کے اطراف پہاڑ اور پھیلا سبزہ ہر بار گویا کسی ماہر مصور کا جیتا جاگتا شاہکار ہی لگتا تھا ۔ پہاڑوں اور پتھروں پہ تیزی اور قوت سے جھرنوں کے پانی میں اتنا جھاگ بن جاتا کہ بالکل بہتا دودھ معلوم ہوتا ۔کسی خاص سیاحتی مقام تک پہنچنے کے لئے جو سفر ہوتا ۔وہ الگ ہی دلچسپ اور قابل دید ہوتا۔ جگہ جگہ پہاڑوں سے بہتے چھوٹے بڑے جھرنے،جن پہ اکثرمقامات پہ وہاں کے مقامی لوگوں نے پلاسٹک کے پائپ لگا کر اپنے کاموں کے لئے استعمال کرتے۔گاڑیاں دھونے کے لئے پائپوں کو ذرا اوپر کی جانب باندھ دیا جاتا ہے تاکہ ان کے نیچے ارام سے گاڑیاں دھوئ جا سکیں۔
پہاڑی لوگ دریا کا پانی کبھی نہیں پیتے ،بلکہ ان قدرتی چشموں سے نکلنے والا پانی ہی استعمال کرتے ہیں۔کئ خواتین اور لڑکیاں سروں پہ رکھے برتنوں میں اوپر گھروں میں پانی لے جاتی نظر آتی تو میں حیرانگی سے اپنے گائیڈ سے پوچھتی ۔کہ پانی تو جگہ جگہ نکلتا ہے تو اتنی دور سے کیوں لے کر جا تی ہیں۔تو اس نے بتایا کہ جس چشمےکا پانی زیادہ صاف شفاف لگتا ہے تو ہم لوگ اسی کا پانی پیتے ہیں۔
کوشش ضرور کیجئے گا کہ زندگی میں ایک بار سہی ان جنت نظیر خطوں کا نظارہ کر سکیں۔
کنیز منظور۔کراچی
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید