Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
اڑن کھٹولہ - فاختہ

اڑن کھٹولہ

کنیز منظور مضامین مطالعات: 157 پسند: 0

اسکول کے زمانےیعنی ستر کی دھائی سے احمد رشدی صاحب کا مشہور ترین گانا ،،اک اڑن کھٹولہ آئے گا ،اک لال پری کو لائے گا۔۔۔سنا تو بہت تھا ،لیکن اب بھلکڑ پن کی وجہ تھی یا عمر کا تقاضا کہیے کہ،جب سچ مچ اس میں سواری کا موقع ملا تو گانا یاد ہی نہیں آیا.اور ویسے بھی اس میں لال پریاں تو نہیں البتہ جرمن گورے اور گوریاں موجود تھیں ،جو ہم پاکستانی رنگین لوگ جرمنوں کے بقول( coloured people )کے خوش ہونے کے لئےبہت کافی تھے۔
سرمئی اور سفید رنگ کا 20میڑ اونچا اور ۔۔15 میٹر چوڑا گرم ہوا کا غبارہ،جس کے نیچے بڑا سا ٹوکری نما اڑن کھٹولہ منسلک تھا ۔ بہت منفرد ،کمیاب اور دلچسپ سواری ہے جس کا تجربہ حال ہی میں جرمنی جا کر ہوا۔
دیگر نئی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی آگاہ ہوئے .کہ وہاں شادی پہ روپئے پیسے کے علاوہ بڑے منفرد تحفے، مثلاً نایاب پھلوں اور پھولوں کے پودے ،پھولوں اور سبزیوں کے بیج بھی تحفتاً پیش کیے جاتے ہیں ۔
میری بہو کے ایک ماموں کا گرم ہوائ غبارہ اڑانے کا کاروبار ہے ۔تو اس نے اپنی بھانجی،ہونے والے داماد اور دونوں کے خاندان والوں کے لئے دو دن گرم ہوائ غبارے کی سواری کا تحفہ دیا ۔ایک دن سواری مفت تھی دلہا دلہن ، ان کے بہت خاص دوست ،بھائ بھابی ماموں ممانی اور کزنز سوار ہوئے ۔دوسرے دن کی سواری کے لئے بھی آدھے سے بھی کم کرایہ رکھا گیا ۔حالانکہ اس میں ایک بار سواری کا کرایہ تقریباً 80ہزار پاکستانی روپئے تھا ۔ایک وقت میں چونکہ دس سے بارہ لوگ ہی سوار ہو سکتے ہیں ۔لہذا پہلے ہی سے سب سے پوچھ لیا گیا کہ جو لوگ اس ذرا خطرناک قسم کی سواری کا حوصلہ رکھتے ہوں،
انکے نام قرعہ اندازی میں شامل کئے جائیں ۔تاکہ دلہا اور دلہن دونوں کے خاندان والوں کو برابر برابر موقع مل سکے۔
خیر ہمیں تو آم کھانے سے مطلب تھا ۔کرایہ ہوتا یا نہ ہوتا مرضی صرف ہماری اپنی تھی کہ اگر اس میں اڑنے کی ہمت ہے تو چڑھ بیٹھیں ۔میری اور شوہر نامدار کی باری دوسرے دن الصبح والی سواری میں تھی۔سورج نکلنے سے پہلے ہدایات کے مطابق خود کو گرم کپڑوں میں لپیٹ کر تیار ہوگئے ۔کھبی کبھی بیٹے اور بہو کے رویئے پہ بہت پیار بھی آتا کہ بالکل بچوں کی طرح خیال رکھتے ۔چونکہ ہم وہاں کے سرد موسم کے عادی نہیں ہیں تو بہو کہتی کہ گرم کپڑوں کا خاص خیال رکھیں تاکہ سردی سے محفوظ رہ سکیں ۔بات تیاری کی ہو رہی تھی تو ہم بھی موٹی موٹی نیلی ،سرخ جیکٹس اور ٹوپی وغیرہ پہن کر تیار تھے ۔جیسے ہی غبارے والی گاڑیاں نمودار ہوئیں سب نے تالیوں کے ساتھ شور مچا کر بڑی خوشی اور گرم جوشی سے انکا استقبال کیا ۔اور جلدی جلدی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر اس وسیع و عریض ،ہرے بھرے گھاس کے میدان جس کی گھاس بڑی ہموار اور نفاست سے کٹی ہوئی تھی۔اس میں پہنچنا شروع ہو گئے۔، وہ میدان بھی اسی فارم ہاؤس کا حصہ تھا ۔ جہاں غبارہ پھلایا جانا تھا ۔کچھ جوان لوگ تو بھاگم بھاگ ہی وہاں پہنچ گئے۔غبارے والے کنٹینر کو گاڑی سے الگ کر کے اس میں سے گرم ہوائ غبارہ جو کہ طے کیا ہوا تھا نکال کر لمبائی کے رخ پہ پھیلا دیا گیا۔غبارے کے نیچے بڑی سی بید اور بانس کی بنی نہایت مضبوط ٹوکری منسلک ہوتی ہے ۔اس کا منہ غبارے کے منہ کی سمت نیچے کی طرف کر دیا گیا ۔اس کی مشین اور سیلینڈر کی مدد سے غبارے میں گرم ہوا بھری جانے لگی ۔وقفے وقفے سے سیلینڈر سے بہت بلند اور طاقتور شعلے نمودار ہوتے اور غبارہ آہستہ آہستہ پھولنا شروع ہوگیا ۔۔ساتھ ساتھ غبارے میں لگے بڑے بڑے رسوں کو کھینچ تان کر درست کیا جانے لگا ۔
بے حد دلچسپ اور انوکھا تجربہ تھا ۔کچھ لوگ اس گرم ہوائ غبارے کو پھلا تے وقت رسیاں پکڑنے میں اس کے اڑانے والے کی مدد کر رہے تھے ۔کچھ اس کے گردا گرد اور اندر تصاویر اور سیلفیاں لینے میں مصروف تھے ۔سب ہی ان لمحات کو یادگار بنانے کی پوری سر توڑ کوشش کر رہے تھے ۔جب وہ لمبائی و چوڑائی کے رخ پہ پورا پھول گیا ،تو اسکی رسیاں کھینچ کر غبارے کے نیچے لگی ٹوکری کو سیدھا کر کے غبارہےکو اوپر اٹھا دیا گیا ۔اور پوری طرح بقیہ جانچ پڑتال کی گئ،پھر اسے اڑانے والے صاحب رائینر کائیٹل نے غبارے کے ساتھ سب کی تصاویر لیں۔
اس میں اترنے کے لئے رسی ہی سے بید کی ٹوکری کے چاروں اطراف مضبوط سے کنڈے بنے ہوئے تھے۔ جن پہ پیر رکھ کے اندر جایا جاتا ہے۔ سب باری باری اس میں اتر گئے۔پوری ٹوکری چھ حصوں پہ مشتمل تھی ۔
درمیانہ حصہ باقی خانوں سے بڑا تھا۔اس میں گرم ہوا چھوڑنے کے لئے مشین ،دونوں چلانے والے افراد،گیس کےسلینڈرز اور باقی ضروری سامان موجود تھا ۔اس کے باقی ہر حصے میں دو دو لوگ کھڑے تھے ۔کیونکہ اس میں بیٹھ نہیں سکتے ۔
جب غبارہ آہستہ آہستہ زمین سے بلند ہونا شروع ہوا تو سب نے خوشی سے نعرے لگاتےتالیوں کے ساتھ سواری کا آغاز کیا ۔غبارے کی مشین کے ساتھ میٹر بھی نصب تھا جو بتا رہا تھا کہ اب ہم کتنی بلندی پر ہیں ۔نہاہت آ سانی سے اڑتے اڑتے،فضا میں گویا تیرتے ہوئے تقریباً دو ہزار فٹ کی بلندی پر بھی پہنچا ۔کبھی مشرق کبھی ذرا مغربی سمت اور کبھی شمالیا جنوب کی جانب ۔جب زمین سے بلند ہو رہا تھا تو آہستہ آہستہ تمام چیزیں چھوٹی سے چھوٹی ہوتی جا رہی تھیں ۔
غبارے کو اڑانے سے پہلے موسم کی صورتحال اور پیشگوئی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔اور اس کے بعد پھر غبارے کی سمت تقریباً ہوا کے رحم و کرم پہ ہوتی ہے ۔کہ شمال ،جنوب ،مشرق یا مغرب جدھر کی ہوا ہو وہ اسی سمت اڑتا ہے ۔اڑانے والا صاحب کبھی اسے بلند کرتا اور کبھی ذرا نیچے کی طرف لے آتا .اس دن بہت بلندی سے سورج نکلتے ہوئے دیکھنے کا وہ نظارہ زندگی میں پہلی بار کیا ۔کہ سورج نیچے تھا اور ہم اوپر اڑتے ہوئے اسے ابھرتا دیکھ رہے تھے ۔آہستہ آہستہ سرخی مائل نارنجی رنگ کے گولے سے سنہری کرنیں پھوٹتی اور ابھرتی ہوئی نظر آ رہی تھیں ۔لیکن ساتھ ساتھ شرارتی بادلوں کی آنکھ مچولی بھی جاری تھی۔جو آ آ کر اس حسیں نظارے کو اپنے دبیز سرمئ پردوں میں چھپا لیتے ۔
اس دن خوش قسمتی سے ہوا بھی کافی حد تک نارمل تھی ۔یوں لگ رہا تھا کہ بس ہم فضا آہستہ آہستہ گویا تیرتے ہوئے اوپر کی جانب جارہے ہیں ۔ کبھی لگتا کہ کو ئ فلمی سین ہے ۔نیچے زمین پہ بڑے سکون سے بہتے دریا۔سمندر ،جھیلیں، سرسبز کھیت ، باغات اور جنگلات سب اپنی اپنی ساخت کے مطابق زمین کا مقناطیسی سا نقشہ پیش کر رہے تھے ۔ وہ سب گویا دھیرے دھیرے مختلف مصوری کے بدلتے ہوئے شاہکار معلوم ہو رہے تھے ۔زیادہ بلندی پہ ہوا تیز تو نہیں تھی البتہ فضا بہت ٹھنڈی محسوس ہو رہی تھی ۔اور ہم کراچی کے گرم موسموں کے جلے ہوؤں لوگوں کو تو ویسے بھی سردی کچھ زیادہ ہی لگتی ہے ۔حالانکہ جیکٹ سے پہلےکپڑوں کی دو تہیں پہن رکھی تھیں ۔جینز کی پینٹس کے نیچے قدرے گرم پاجامہ بھی تھا ۔ وقفے وقفے سے غبارے میں بھری جانے والی گرم ہوا شدید دباؤ کے ساتھ نکلتی اور اوپر اٹھتی ۔اس کے بہت گرم اور قریب ہونے کی وجہ سے ہمیں سردی بالکل محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔چونکہ اس گرم ہوا کا رخ اوپر کی جانب تھا ۔اس لئے ٹانگوں پہ بہت سردی لگ رہی تھی ۔کچھ مسلسل کھڑے رہنے سے میری ٹانگیں تھک بھی رہی تھیں ۔
اب سوائے ارد گرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔اس لئے خود کو کھلے آسمان اور زمین کے حسین ،وسیع و عریض نقش و نگار کو دیکھنے،انکو کیمرے میں محفوظ کرنے میں مصروف کئے رکھا۔غبارہ رکھے جا نے والا کنٹیر اور دو عدد گاڑیاں بھی نیچے چل رہی تھیں ۔جن میں غباربےکو اتارنے ،ہوا نکالنے اور اسے سمیٹنےکے لئے ،بہو کے خاندان کے کچھ افراد موجود تھے۔
غبارہ جس سمت میں اڑتا جاتا ،گاڑیاں بھی ممکنہ حد تک ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھیں ۔ ایک جگہ وہ گاڑیاں نیچے کھڑی نظر آئیں ۔تب غبارہ قدرے کم اونچائی یہ تھا ،اس لئے گاڑیاں دیکھی جا سکتی تھیں ۔کچھ دیر کے لئے رکیں تاکہ غبارے کے رخ اور
راستے کا تعین کیا جا سکے ۔بہرحال وہ سب بھی بہت ہی دلکش لگ رہا تھا ۔جب اتنی دور اوپر سے دیکھا کی نیچے کھڑے اپنے لوگ ہاتھ ہلا رہے ہیں ۔غبارے میں سوار لوگ بھی بڑی خوشی اور گرم جوشی سے ہاتھ ہلا ہلا کر ان کے اشاروں کا جواب دیے رہے تھے پھر گاڑیاں چلنے لگیں ،ہم سب بھی کچھ دیر انہیں ساتھ ساتھ دیکھتے رہے۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوتیں تو سب بڑے تجسس سے انہیں ادھر اُدھر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ،اور جسے پہلے مل جاتیں وہ دوسروں کو بھی بتاتے کہ اپنی گاڑیاں اس طرف سے آ رہی ہیں ۔غبارے کی سواری سے تو سب لطف اندوز ہو ہی رہے تھے ساتھ ساتھ یہ گاڑیوں کی آنکھ مچولی سے بھی محظوظ ہو رہے تھے۔
۔تقریبا آدھے گھنٹے کی پرواز کے بعد غبارہ ایک جگہ جب قدرے نیچے ہوا اور انتہائی سرسبز اور گھنے جنگل کے اوپر سے گزرا ،جو بہت قریب لگ رہا تھا حتی کہ چڑیوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔درخت بہت صاف دکھائی دے رہے تھے ،تو میری بہو کے ماموں کو نجانے کیا شرارت سوجھی ،مجھے کہنے لگے کیا آپ پرندے گننا پسند کریں گی ،،(would you like to count the birds,,).میں نے جب بے ساختہ no
کہا تو سب نے قہقہہ لگادیا ۔ ازراہ تفنن وہ مجھے ڈرانا چاہ رہے تھا۔کیونکہ جانتے تھے کہ میں پہلی مرتبہ یہ سواری کر رہی ہوں ۔سچ میں اس ٹوکری میں بیٹھ کے، نہیں کھڑے ہو کر کھلی فضاؤں میں اڑنا بے حد دلچسپ ،خوبصورت اور منفرد تجربہ تھا ۔ بعد میں بس ذرا اس بات پہ حیرانگی بھی ہوئی کہ مجھے کچھ خاص ڈر کیوں نہیں لگا۔جیسے کہ بچپن سے میں اسی میں سواری کرتی آئ ہوں ۔
کبھی غبارہ گندم نما دور دور تک پھیلی ،تیار سنہری خوشوں والی فصلRye کا دیدار کراتا ۔کبھی جنگلوں کبھی مختلف فارم ہاؤسز اور کبھی آبادیوں کے اوپر سے گزرتے تو جرمن جو ان علاقوں سے واقف تھے ۔بڑی گرم جوشی سے بتاتے یہ فلاں علا قہ ہے۔فلاں علاقے میں ہمارے وہ دوست یا رشتے دار رہتے ہیں ۔خاص طور پہ جن لوگوں کو جغرافیے سے زیادہ دلچسپی تھی وہ تو بڑے ذوق وشوق سے ان علاقوں کے نام بتاتے اور ان کی خاص باتیں بھی بتاتے ۔جو کہ مجھے تو یاد نہیں ہو سکے۔
تقریباً ایک گھنٹے کی اڑان کے بعد جب غبارہ اترنے کے لئے آہستہ آہستہ زمین کی طرف آنے لگا،تو بڑے بڑے وسیع و عریض قالین نما کھیتوں پہ اڑتے ہوئے اس پورے غبارے کا سایہ نظر آ رہا تھا ۔وہ بھی الگ ہی منظر پیش کر رہا تھا ۔ حالانکہ ہم اس کے نیچے لگی ٹوکری میں کھڑے تو تھے لیکن سائے میں واضح طور پہ دکھائ نہیں دے رہے تھے ۔لیکن پھر بھی عجیب سی خوشی محسوس کر رہے تھے کہ یہ ہمارے غبارے کا عکس ہے ۔اس لئے تقریباً سب ہی وہ لمحات اپنے فونز اور کیمروں میں ٹھکا ٹھک محفوظ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے ۔کچھ دیر بعد جب غبارہ تقریباً زمین پہ اترنے کو تھا تو اسے کھیتوں کے اوپر سے گزر کر خالی زمین پر پہنچنا تھا ۔
اس گندم نما رائےRye کی فصل کے سنہری خوشے ہمارے چاروں اطراف پھیلے ہوئے تھے ۔اور ٹوکری کی نچلی سطح سے ٹکرا بھی رہے تھے ۔ہم نہایت آہستگی سے گویا ان پہ تیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ غبارے والی گاڑیاں پہلے ہی پہنچ چکی تھیں ۔لہذا ان میں موجود جواں سال لڑکوں میں سے دو لوگ اسے پیچھے سے دھکیلنے لگے۔ دو تین آگے سے اسکے رسوں کی مدد سے اسے کھینچنے لگے ۔میرا شیر بچہ بھی چھلانگ لگا کرنیچے اترا اور ٹوکری کو دھکیلنے میں اپنے سسرالی رشتے داروں کی مدد کر نے لگا ۔چاروں جانب پھیلے سنہری کھیتوں میں کہیں کہیں خشخش کے نازک سے پودوں پہ لگے ذردی اور کہیں سرخی مائل نارنجی پھول ہوا میں لہراتے ہوئے بے حد حسین لگ رہے تھے ۔میں نے انکی تصویریں لینے کی کوشش توبہت کی ۔لیکن کیا کریں اسمارٹ فون اور جدید ٹیکنالوجی کا ماہرانہ استعمال ابھی تک کچھ زیادہ آیا ہی نہیں۔اس لئے تصویروں میں وہ پھول بہت ہی چنے منے سے نظر آرہے تھے ۔البتہ اپنی خود کی آنکھوں سے جس حد تک ممکن تھا ۔جی بھر بھر کے ان کا نظارہ کیا۔
غبارے والی ٹوکری جب زمین کے اور قریب ہوتی ہوئی کھیتوں کے اوپر سے گزر رہی تھی تو اس کے وزن سے پودے بیٹھ رہے تھے ۔تو پیچھے دور تک سڑک سی بنتی جا رہی تھی ۔بخیر وعافیت آخر کار بہت ہی عمدگی ،نہایت مہارت اور آہستگی سے غبارہ فصل کو روندتا ہوا زمین پہ آ ٹکا ۔سب نے نہایت خوشی و مسرت کا اظہار کیا ۔اور غبارہ اڑانے والے جوڑے کا بے حد شکریہ بھی ادا کیا ۔ان کی اعلیٰ فنی مہارت کو تالیاں بجا بجا کر سراہا۔
سب کو باری باری ٹوکری سے اتارا گیا ۔اسے خالی کرنے کے بعد اسے اس کے کنٹینر میں پہنچا دیا گیا ۔غبارے کی ہو ا نکال کر زمین پہ پھیلانے کے بعد اس کے اوپر چڑھ کے ،دبا دبا کر ہوا اچھی طرح نکالنے کے بعد سلیقے سے اسے طے کر کے کنٹینر میں رکھ دیا گیا ۔ وہاں بھی غبارے کے ارد گرد تصاویر لی گئیں ۔ اسی دوران وہاں ایک جرمن اکر غبارہ اڑانے والوں سے باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لکھتا بھی جا رہا تھا ۔ایک لمحے کو میں واقعی ڈر گئ کہ لو جی پھڑے گئے ، شاید کوئ سکیورٹی وغیرہ کا بندہ ہے جو فصل روندے جانے پر جرمانہ لگانے ایا ہے ۔بیٹے سے پوچھا تو پتہ چلا کی وہ ان کھیتوں کا مالک ہے ۔اور اپنے کھیتوں میں غبارہ اتارنے والے کا نام اور اس کی کمپنی کانام انشورنس کے لئے نوٹ کر رہا تھا۔
جس علاقے میں غبارے کو اتارا گیا تھا وہ بھی بہت ہی سر سبز اور بہت خوبصورت علاقہ تھا ۔اور چمکتے سورج کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے چمکتے روپہلی روئ کے گالے نما بادلوں کے ڈھیر بھی بہت شاندار منظر پیش کر رہے تھے ۔ ان سب سے محظوظ ہونے کے بعد گھر واپسی کا سفر شروع ہو گیا
چونکہ صبح صبح کا وقت تھا ۔گھر پہنچے تو باہر ہرے بھرے درختوں اور ہر طرف مختلف رنگ برنگ پھولوں خصوصا ڈھیروں گلابی رنگ کےگلابوں اور کہیں کہیں سرخ گلابوں کے سامنے۔ لگے میزوں پہ ناشتہ سجا دیا گیا ۔جو کہ بہو کے ماں باپ لے کر آئے تھے ۔ہمارے ہاں تو شادی کے دوسرے دن لڑکی کے گھر والے ناشتہ لاتے ہیں ۔یہاں انکی ایسی کوئی جرمن رسم وغیرہ نہیں بس اپنی خوشی سے ہماری سمدھن اپنے بچوں ،بھائ بھابھی اور سب کے لئے ناشتہ لے کر لائ تھی اور ساتھ ہماری بھی دعوت ہو گئی۔ورنہ ہم پاکستانی سمجھتے ہیں کہ میزبانی صرف ہمارا ہی خاصہ ہے۔دو تین قسم کے سینڈوچز ، مختلف کیک، کٹے ہوئے بڑے بڑے تازہ ٹماٹروں ،تازہ گاجر سیب اور کھیرے کے قتلے اور سلاد کے پتے۔وائن، بئیر ،سیب اور مالٹے کے جوس کے علاوہ چائے،ہری چائے اور کافی بھی موجود تھی ۔بہت ہی رنگا رنگ اور عمدہ ناشتہ تھا جس پر سب ہی نے بڑے شوق سے ھاتھ صاف کئے۔اتنی شاندار سواری کے بعد نہایت عمدہ اور مزے دار ناشتے نےاس دن کو بہت ہی یادگار بنا دیا تھا ۔
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید