Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
اَسد عباس خان، جھنگ - فاختہ

اَسد عباس خان، جھنگ

عمانوئیل نذیر مانی صریرِ خامہ مطالعات: 64 پسند: 0

عمانوئیل نذیر مانی کا نیا جہانِ سُخن

شاعری ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو داخلی اور خارجی سطحوں پر معنویت کو دریافت اور اُجاگر کرتا ہے۔ ایک کامیاب شاعر وہی ہوتا ہے جو اِن دونوں جہتوں کو ہم آہنگ کرتے ہوئے شعر میں تکمِیلیت پیدا کرے۔ جدید اُردو شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ دَور کے شعرا نے شعر کے مفہوم اور اِس کی جہات کو نئی وُسعت دی ہے، جہاں نہ صرف عصرِ حاضر کی بازگشت سُنائی دیتی ہے بلکہ مُستقبل کی بشارتیں بھی مِلتی ہیں۔
اِن جدید آوازوں میں عمانوئیل نذیر مانیؔ کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو داخلی و خارجی کیفیات کو یکجا کرکے تخلیق کی نئی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری نہ صرف زبان و بیان کی لطافت کا مظہر ہے بلکہ فِکری، رُوحانی اور جمالیاتی اِمتزاج سے بھرپور ہے۔ اُن کی شاعری میں مذہب، سیاست، سماج اور فلسفہ سبھی موضوعات ایک نئی جہت کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ رِوایت اور جِدّت کا ایک ایسا اِمتزاج پیش کرتے ہیں جو شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کرتا ہے۔
اُن کی شاعری کی نُمایاں خصوصیات میں سلاست اور روانی، تازہ خیالات اور جدید موضوعات، عروضی کمال اور قافیے کی مہارت، نیا اُسلوب اور منفرد طرزِ اظہار اور گہرے فِکری اور رُوحانی مضامین شامل ہیں۔ یہ خصوصیات اُن کے کلام کو ایک نئی پہچان عطا کرتی ہیں اور اُنہیں معاصر شعرا میں ممتاز کرتی ہیں۔ اُن کا شعری آہنگ قاری کو ایک ایسے فِکری و جذباتی سفر پر لے جاتا ہے جہاں زِندگی، کائنات اور اِنسانی نفسیات کے مختلف رنگ اور پہلو نُمایاں ہوتے ہیں۔
عمانوئیل نذیر مانیؔ کی شاعری کی تین کِتابیں اُردو اَدب میں اپنی خاص پہچان بنا چُکی ہیں:’’فاختہ رقص کرے گی‘‘، ’’پہلی نظم مَحبّت ہے‘‘، اور ’’ساون میں پھُول کھِلے‘‘۔ یہ کِتابیں اُن کی فِکری اور تخلیقی وُسعت کی عکاسی کرتی ہیں۔ اُن کے ہاں زِندگی اور اِنسانی جذبات کو نیا رنگ دینے کی صلاحیت ہے۔ اُن کی شاعری محض خیالات کی ترجمانی نہیں بلکہ ایک گہری فِکری اور رُوحانی تحریک ہے۔
نذیر مانیؔ کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مُکمِل فِکری اور رُوحانی تجربہ ہے۔ اُن کے ہاں رُوحانیت محض مذہبی عقائد تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر فِکری اور جمالیاتی روّیہ ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ایک نئی دُنیا کی تعمیر کرتے ہیں، جہاں لفظ ایک نئے جہان کے دروازے کھولتے ہیں۔ جیسا کہ امرتا پریتم نے کہا تھا، ’’آدمی کو مذہبی نہیں، روحانی ہونا چاہیے۔‘‘ مانیؔ کی شاعری بھی اِسی اصُول پر اُستوار نظر آتی ہے۔ وہ مذہب اور فلسفے کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہیں اور الفاظ کو ایسی قُوت بخشتے ہیں جو قاری کو ایک نئے فِکری اور رُوحانی تجربے سے رُوشناس کراتی ہے۔
اُن کے ہاں دُنیاوی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ ایک ماورائی سچائی کا اِدراک بھی موجود ہے۔ اُن کی شاعری میں خُدا، اِنسان، کائنات اور وقت کے مختلف تصورات نہایت خُوبصورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو مادی دُنیا کی حدود کو پار کرتے ہُوئے ماورائی حقیقتوں کی طرف سفر کرتے ہیں اور قاری کو بھی اِس فِکری و رُوحانی سفر میں شامِل کرتے ہیں۔
مانیؔ صاحِب کی شاعری میں زبان و بیان کے تمام مروجہ اُصولوں کی پاسداری کے ساتھ ایک جِدّت اور تازگی بھی موجود ہے۔ وہ نہ صرف رِوایت سے جُڑے ہُوئے ہیں بلکہ نئے دَور کے تقاضوں کے مُطابق شاعری کے آہنگ کو بھی ترتیب دیتے ہیں۔ اُن کا شعری اسلوب رِوایت اور جدیدیت کا حسین اِمتزاج ہے۔
یہاں چند اَشعار دیکھئے جو اُن کی فِکری گہرائی اور جمالیاتی نزاکت کا مظہر ہیں:

رات اُترا تھا چاند دَریا میں
رات سے چاند ہو گیا دَریا

یہ ایک ایسا شعر ہے جو کئی معنوی پرتوں میں کھُلتا ہے اور قاری کو تفکر کے ایک نئے جہان میں لے جاتا ہے۔

سارے کِردار ایک جیسے تھے
مَیں نِکل آیا ہُوں کہانی سے

یہ شعر نہ صرف تخلیقی مہارت کا اِظہار ہے بلکہ اِنسانی نفسیات اور زِندگی کے اِرتقا کا ایک عکاس بھی ہے۔
عمانوئیل نذیر مانیؔ کی شاعری کو اگر جدید اُردو ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اُن کا کلام جدید اُردو شاعری کے رُجحانات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ وہ مروجہ اَدبی نظریات سے آگے بڑھ کر ایک ایسا اُسلوب اپناتے ہیں جو اُن کے مُنفرد تخلیقی جوہر کا اظہار ہے۔ اُن کی شاعری میں عصری حسیت، معاشرتی بصیرت اور رُوحانی بالیدگی کا ایک ایسا اِمتزاج ہے جو قاری کو حیرت میں مُبتلا کر دیتا ہے۔ وہ شاعری کے ذریعے زِندگی کے اہم ترین سوالات کو زیرِ بحث لاتے ہیں اور قاری کو ایک نئی سوچ عطا کرتے ہیں۔
عمانوئیل نذیر مانیؔ کی شاعری ایک نئی فِکری اور جمالیاتی سَمت کا تعین کرتی ہے۔ اُن کے ہاں خیال اور جذبہ ایک نئی توانائی کے ساتھ نُمایاں ہوتا ہے۔ وہ جدید اُردو شاعری میں ایک منفرد آواز ہیں جو ماضی، حال اور مُستقبل کو ایک لڑی میں پروتے ہیں۔ اُن کا کلام پڑھنے کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ نہ صرف ایک شاعر ہیں بلکہ ایک صاحبِ نظر اور صاحبِ کشف فنکار بھی ہیں جو اپنے الفاظ سے نیا جہانِ سخن تخلیق کر رہے ہیں۔ اُن کی شاعری آج بھی زِندہ ہے اور آنے والے وقت میں بھی اُردو اَدب میں ایک روشن سِتارے کی مانند چمکتی رہے گی۔
شعر دیکھئے

تُم کہانی کو مختصر کرتے
میرا کِردار کاٹ دو گے کیا؟

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمانوئیل نذیر مانیؔ ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اُردو شاعری میں ایک نئی رُوح پھُونکی ہے۔ اُن کے کلام میں رِوایت کی خُوشبو بھی ہے اور جِدّت کی تازگی بھی۔ وہ ایک ایسا جہانِ سُخن تخلیق کر رہے ہیں جہاں شاعری محض اَلفاظ کی ترتیب نہیں بلکہ ایک فِکری اور رُوحانی سفر ہے، جو ہر قاری کے دِل میں نئی روشنی بکھیر دیتا ہے۔ اُن کے اَشعار زِندگی کے پیچیدہ سوالات کو ایک سادہ مگر گہرے انداز میں بیان کرتے ہیں، جہاں محبت، کرب، جُدائی، وِصال، اُمید اور یقین سبھی جذبات اپنی مکمل شِدّت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

دُوریوں کا حِساب مُشکِل ہے
ہجر کو بے حِساب لِکھ دینا

اُن کی شاعری میں داخلی اور خارجی دُنیا کی خُوبصورتی اور تلخی دونوں شامل ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے اِرد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ اِنسانی فطرت، جذبات اور احساسات کے رنگوں کو بھی اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری صرف ایک مخصوص طبقے کے لئے نہیں بلکہ ہر اُس شخص کے لئے ہے جو زِندگی کی حقیقتوں کو گہرائی سے سمجھنا چاہتا ہے۔ اُن کے الفاظ میں ایک ایسا جادُو ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ایک ایسے سفر پر روانہ کرتا ہے جہاں وہ خود کو دریافت کر سکتا ہے۔
شعر دیکھیں

آسماں چُپ ہے یہ زمیں بھی چُپ
شور کیسا ہے یہ فَضائوں میں

اُن کے ہاں عِشق ایک مُقدّس تجربہ ہے جو محض رومانوی نہیں بلکہ ایک کائناتی حقیقت کی صُورت اِختیار کر جاتا ہے۔ وہ محبت کو محض ایک جذباتی کیفیت کے طور پر نہیں بلکہ ایک فِکری اور رُوحانی تجربے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری کا ہر شعر ایک مکمل جہانِ معنی رکھتا ہے اور قاری کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

جان لو گے تو رو پڑو گے مِیاں
عِشق میں ہم فقیر کیسے ہُوئے

عمانوئیل نذیر مانیؔ کی شاعری نہ صرف اُردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے بلکہ یہ آنے والے وقتوں میں بھی فِکر و سخن کی دُنیا میں ایک مُنفرِد مُقام رکھے گی۔ اُن کے اشعار ہمیشہ زِندہ رہیں گے اور اُن کی روشنی مُستقبِل کے قاری کے لئے بھی اِسی طرح درخشاں رہے گی جیسے آج ہے۔


اَسد عباس خان
جھنگ
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید