Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
چراغ والی خاتون۔۔۔۔ - فاختہ

چراغ والی خاتون۔۔۔۔

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 40 پسند: 0

خواتین فطری طور پر نرم دل ، رحم دل ،حساس دل ، ایثار و وفا اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوتی ہیں۔ قدرت کاملہ کی طرف سے انھیں خاص صفات کا تحفہ دیا گیا ہے۔تاریخ کا کوئی بھی دور پڑھ کر دیکھ لیں۔ ان کی خوبیوں کی کوئی نہ کوئی اچھوتی مثال مل جائے گی۔ عموما خواتین کو چھوٹے بچوں ، درس و تدریس اور طب کے شعبوں کے لیے موزوں قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اپنے اندر برداشت کی قوت رکھتی ہیں۔ یہ بڑے سے بڑے معاملے کو بھی آسانی سے سلجھا لیتی ہیں۔ اس لیے ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

آج کہ کالم میں ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا جائے گا جو اپنی خدمت، فن اور قربانی جیںسے جذبے سے مامور تھیں۔ اٹھارویں صدی میں پیدا ہونے والی فلورنس نائیٹ انگیل معمار نرس کیسے بن گئی؟ اسی سوال کی روشنی میں چراغ والی خاتون تک پہنچیں گے۔اٹلی کی سرزمین سے جنم لینے والی فلورنس نائیٹ انگیل 12 مئی 1820ء کو اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام ولیم نائیٹ انگیل تھا جبکہ والدہ کا نام فرانسس نائیٹ انگیل تھا۔ وہ اعلی اور تعلیم یافتہ برطانوی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ان کا گھرانہ امیر ترین اور مقبول تھا۔ گھر میں کسی بھی شے کی کمی نہ تھی۔ بلکہ ہر چیز کی بہتات تھی۔ فلورنس چاہتی تو وہ گھر بیٹھ کر بھی اپنی زندگی گزار سکتی تھیں ۔ لیکن اس نے محنت کو نصب العین بنایا۔

قدرت نے ہر انسان کو الگ الگ مزاج دے رکھا ہے۔فلورنس کی والدہ سخت مزاج خاتون تھیں ۔جبکہ بیٹی کو قدرت نے نرم مزاج دے کر پیدا کیا۔اس کی شخصیت میں نرم دلی رحم دلی اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسے یہ جذبہ بچپن سے ہی ودیعت ہو گیا تھا۔اسے انسانیت کی خدمت کے لیے بلا لیا گیا ۔یہ آواز اسے سترہ سال کی عمر میں سنائی دی۔ یہ خدا کی ایسی سنہری آواز تھی۔جسے سنتے ہی اس نے لبیک کہہ دیا۔ کوئی عذر یا بہانہ پیش نہ کیا بلکہ قدرت کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ فلورنس نائیٹ انگیل کی صلاحیتیں اس وقت سامنے آئیں ، جب جنگ کریمیا میں انھیں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے بھیجا گیا۔وہ اپنی اڑتیس نرسوں کے ہمراہ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے روانہ ہوئیں۔یہ جنگ تقریبا تین سال تک جاری رہی۔
یہ جنگ کریمیا میں برطانیہ، فرانس اور سلطنت عثمانیہ نے مل کر روس کے خلاف جنگ لڑی۔اس جنگ کے دوران فلورس نائیٹ انگیل نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کی محنت اور حکیمانہ بصیرت کے باعث شرح اموات بیالیس فیصد سے کم ہو کر دو فیصد تک رہ گئی۔

اس اثناء میں ملکہ وکٹوریہ نےفلورنس کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اسے پچاس ہزار پاؤنڈ انعام دیا۔ فلورنس کی زندگی میں بچپن سے ہی مقصد کا چراغ جل رہا تھا۔ کیونکہ وہ رات کی تاریکی میں بھی شمع لے کر مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔اسی خدمت اور جذبے نے اسے سر بلند کیا۔ اس نے اس خطیر رقم سے ایک ہسپتال قائم کیا۔
اسے نرسنگ کے شعبہ سے انتہا کی محبت تھی۔اس نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اس شعبے پر قربان کر دیا۔حتی کہ شادی کروانے سے بھی انکار کر دیا۔اس نے 1860 میں لندن کے سینٹ تھامس ہسپتال میں نائیٹ انگیل اسکول آف نرسنگ قائم کیا۔ یہ نرسنگ کی پہلی تربیت گاہ تھی۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں۔اس کی دو کتابیں شہرت کی حامل ہیں۔
پہلی نرسنگ کے لیے یادداشتیں
دوسری ہسپتال کے لیے یادداشتیں
اس نے شب و روز کی محنت کے بعد انھیں قلم بند کیا۔ وہ چاہتی تو سکون کی نیند سو سکتی تھی ۔لیکن اس نے محنت کو شعار بنا کر اپنی زندگی کے نصب العین میں شامل کر لیا تھا۔وہ اپنی زندگی کا مقصد پورا کر کے تیرہ اگست1910 ء کو جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ان کی آخری رسومات کو نہایت سادگی کے ساتھ ادا کیا گیا۔یہ ان کی وصیت تھی کہ مجھے سادگی کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید