Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
زندگی کی خوب صورتی ۔۔۔۔۔ - فاختہ

زندگی کی خوب صورتی ۔۔۔۔۔

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 41 پسند: 0

زندگی رب کائنات کی خوب صورت امانت ہے، نہ اس کا شروع نہ آخر بلکہ نسل انسانی کا صدیوں پرانا سلسلہ ہے۔جس نے زندگی کو خوب صورت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ زندگی کو خوب صورت بناتا ہے یا اسے دوزخ کی آگ کے سپرد کر دیتا ہے۔ ہماری زندگی کی معیاد ستر یا اسی برس ہے۔ اگر زیادہ ہے تو وہ خدا کی شفقت کا تقاضا ہے۔ ہم آئے دن زندگی کے متعلق بھیانک واقعات سنتے ہیں ، انھیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہر روز ظلم و ستم کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے معمول کے مطابق ہوتے ہیں۔ معمولی باتیں قصوں میں اور قصے کہانیوں میں بدل جاتے ہیں۔ معمولی رنجشیں عمر بھر کے لیے دیواریں بنا دیتی ہیں۔ قلب و ذہن کی زمین شکوک و شبہات سے بھری رہتی ہے۔ انسان اظہار کرنے سے کتراتا ہے۔ اس کے مثبت خیالات کو حسد کا کیڑا کھانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ دن بہ دن کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے حتی کہ انسان ذہنی طور پر ایک دوسرے سے متنفر رہتا ہے۔ ان ساری باتوں کے پس پشت انسان کی نفسیات کے ساتھ کچھ ایسے محرکات نتھی ہوتے ہیں ، جو زندگی کے بگاڑ میں عدم توازن کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے محرکات پر قابو پانے کے لیے چند گزارشات پیش خدمت ہیں جو زندگی کو خوب صورت بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔

کائنات سے محبت :
کائنات قدرت کا بہت بڑا خزانہ ہے ، جس میں پانی، ہوا ، روشنی ، معدنیات اور زمین بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کائنات کے خوب صورت عناصر ہیں جن کی بدولت ساری رونقیں زندگی کو خوشیوں کا گہوارہ بناتی ہیں ۔ روی زمین پر سمندروں کا شور اور بہاؤ رشک و تحسین کا باعث ہے ، پہاڑوں کے رنگ اور چوٹیاں اس کے عجائب ہیں ،پوربی ہواؤں کا چلنا تغیرات کا منہ بولتا ثبوت ہے، بادلوں کا گرجنا اور برسنا ابر رحمت کا نشان ہے ، بجلی کا پورب سے پچھم تک سفر کرنا الہی اختیار کا نشان ہے۔ زندگی بذات خود ایک معجزہ اور مکاشفہ ہے۔یہ انسانی سوچ سے بالاتر ہے۔عموما یہ اس وقت خوب صورت اور بابرکت لگتا ہے جب انسان قانون قدرت کی تمام تر رعنائیوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اسے حسی قوت کے ذریعے مصنوعی اور غیر مصنوعی چیزوں کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔فطرت کے قریب رہنے سے رشک و تحسین کے جذبات پھلتے ہیں۔

رشتوں کا تقدس :
بنیادی طور پر انسان رشتوں کے بندھن میں مقید ہے۔ اسے جذبات کی توانائی انھی رشتوں کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ خوشی اور غم کے احساسات ملتے ہیں۔ عزت و برتاؤ کا جذبہ بڑھتا ہے۔ نیکی اور بھلائی کو فروغ ملتا ہے ۔خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ احساس کی پرچھائیوں سے سکون ملتا ہے۔ حب الوطنی اور محبت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ امید و بہار کا گلشن آباد ہوتا ہے۔ گلشن میں خوشیوں کے پھول کھلتے ہیں۔ پھر انھی رشتوں کی بدولت انسان انسانیت سیکھتا ہے۔ ملنساری کی روایت پختہ ہوتی ہے۔انسان اگر زندگی کے ہر موڑ پر رشتوں کا تقدس بحال رکھے تو وہ دربدری کی ٹھوکروں سے بچ سکتا ہے۔

امید کا دامن :
زندگی امید کی کرن ہے کیونکہ سورج ہمیں ہر صبح نئی کرنوں کا دیدار کرواتا ہے ۔ یہ خدا کی شفقت اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دن اور رات کے درمیان سالوں اور صدیوں کا بھید ہے جو امید کو ختم نہیں ہونے دیتا۔
یہ قدرتی امر ہے کہ انسان زندگی کے آخری دم تک امید کا دامن تھام کر رکھتا ہے۔ یہ صدیوں پرانا مکاشفہ ہے جیسے ہر زمانہ کے لوگوں نے حاصل کیا ۔ اس کی مرہون منت اپنی زندگی سے مایوسی اور تاریکی کو ختم کیا ہے ۔ امید کی تصویر آنکھ کے پردوں میں بنتی ہے۔ پھر یھی خواب تعبیر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ یہ فارمولا ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حالات و واقعات کی جنگ لڑنے کے لیے امید کا دامن تھام کر چلنا چاہیے۔

مثبت خیالات کی مشق:
انسان جتنا زیادہ مثبت خیالات کی مشق کرے گا۔وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ ترقی کرے گا ۔بار ور ہوگا ۔مقبول نظر ہوگا ۔دکھوں کی اضافی گھٹاؤں سے بچ جائے گا۔ یہ ایک عالم گیر اصول ہے کہ اگر خدا مذاہب کی جانچ پڑتال کیے بغیر اپنے سورج کو نیکوں اور بدوں پر چمکاتا ہے، تو پھر ہم دنیا کے انصاف کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ میں قدرت کی کون کون سی مثال دوں ۔سمجھنے کے لیے ایک دوسری مثال پیش خدمت ہے۔ اس کی رحمت کے بادل بھی کسی تفریق کے بغیر برستے گرجتے اور چمکتے ہیں۔ یہ ایک سنسنی خیز معاملہ ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے حکمت و معرفت کی ضرورت ہے ۔بات کے دوسرے رخ منفی سوچ چلنے میں لڑکھڑاہٹ اور ہاتھوں کو بے سکت بنا دیتی ہے۔چنانچہ ذہنی اذیت اور بے چینی سے بچنے کے لیے مثبت سوچ بڑی سے بڑی آزمائش پر غلبہ عطا کرتی ہے۔

نیکی اور بھلائی کے کام :
مذاہب نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔ جیسے ہی انسان ان کاموں کی مشق شروع کرتا ہے۔ قدرت اس کا ہاتھ تھام کر بابرکت بنا دیتی ہے۔ یہ عمل انسانوں کی نظر میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ خدا کی نظر میں اتم درجہ رکھتا ہے۔ انسان چھوٹی چھوٹی نیکیاں فروغ دے کر سرفرازی کا اجر پا سکتا ہے۔ دنیا کی مشکلات کم کر سکتا ہے۔ قربتوں کا دامن وسیع کر سکتا ہے۔ اعتماد کی گرہ لگا سکتا ہے۔
راہ میں پڑے کانٹے اٹھا دینے سے انسان کا نہ صرف خود کا رستہ صاف ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ نیکی اپنی ذات سے شروع کریں تاکہ دوسروں کو عیب دیکھنے کا موقع نہ ملے۔

محبت کی بنیاد :
محبت خدا کا الہی حکم ہے جو اسے اپنی زندگی میں پورا کرتے ہیں۔ وہ خدا کی محبت سے کبھی بھی محروم نہیں ہوتے۔بلکہ انہیں دنیا میں دگنی محبت کا صلہ ملتا ہے۔ نفرتوں میں کیا رکھا ہے یہ تو محبت کا پھل کھا جاتی ہیں ۔ انہیں مارنے اور بھگانے کے لیے اعتماد کا عصا لینا پڑتا ہے۔یاد رکھیں! جو شخص آپ سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتا اس کے ہاتھوں سے محبت کی چکناہٹ ختم ہو جاتی ہے ۔ یقینا زندگی کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانے کے لیے محبت کی راہ اختیار کرنا ہوگی تاکہ ہمارے وجود کے ارد گرد پھیلا ہوا اندھیرا ختم ہو سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید