Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
تجسیم مژدہ - فاختہ

تجسیم مژدہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 68 پسند: 0

تجسیم مژدہ
...
شعر و سخن سے وابستگی ایک فطری عقیدت ہے۔اسے افکار و نظریات کی روشنی میں زمانوں کی قید سے ماورا ہو کر بڑی عمدگی اور تجسس کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔زمانہ کوئی بھی ہو جذبات کا طلسم اور وجدان روح میں تحریک ضرور پیدا کرتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے روحانی اسودگی کے لیے نہیں میلانات اور رجحانات کی مرہون منت خود اعتمادی ، خود گری اور خود نگری میں کامیابی حاصل کی ہے۔وہ ادب کی کار فرمائیوں اور کارکشائیوں سے بخوبی واقف ہے۔ شاعری میں خوشی اور غم کا ملا جلا رجحان شامل ہوتا ہے۔ عرض و معروض کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ باطنی احساسات کا جم غفیر جو قلبی شدومد کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ روی زمین اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا میں نکتہ داں شخص برسوں بعد پیدا ہوتا ہے۔جو شخص اپنی فطرت میں عقیدت و محبت کے جذبات رکھتا ہو،اسے قدرت کی زبان آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ وہ اپنے جذبات بیان کرنے کے لیے اصناف ادب کا سہارا لیتا ہے۔ اظہار شاعری میں ہو یا نثری کلام میں۔ وہ اشب قلم کا راہی بن کر کلام اخذ کرتا جاتا ہے۔فطرت کے رنگوں میں دنیا ایک ایسا چمن ہے جس میں رنگ برنگے لوگ ہیں۔ان کے عقائد و نظریات فرق فرق ہیں۔ہر کوئی قدرت کی دی ہوئی حکمت و معرفت کے مطابق محو سفر ہے۔ روز مرہ کے معمولات میں مشغول ہے۔ادب کی دنیا میں شعوری طور پر ایک تخلیق کار کا چمن اس کے خیالات ہوتے ہیں۔وہ انہیں لڑی میں پرو پرو کر جذبات کی خوبصورت مالا بنا دیتا ہے۔ا سے دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے یہ ایک الگ معاملہ ہے۔یوں کہہ لیجئے یہ تلاش رفاقت کا خوبصورت انداز ہے ۔جب اسے اپنایا جاتا ہے تو دائم المرض لوگوں کے لیے آفاقی شفا بن جاتا ہے۔جب انسان خود نگری سے آزاد ہو کر قلم اٹھاتا ہے تو اس کے قلم سے صادر ہونے والے کلمات ، اشعار، غزلیں اور نظمیں اچنبھا بن جاتی ہیں۔اسی طرح جب ایک شاعر اپنے کلام میں بیدار مغزی کی روح پنپنے کا موقع دیتا ہے تو وہ ایسی صورت میں مجسم ہو کر لوگوں کے اذہان و قلوب کو برکات و فضائل سے سیراب کرتا ہے۔جب وہ شاعری میں ایسے تصورات کی روح پھونکتا ہے تو اس کے اندر چشم تخیل سمیٹنے کا اجتہاد شروع ہو جاتا ہے۔ تخیلات میں ہماہمی آ جاتی ہے۔ میرے ہاتھوں میں کتاب ہے۔اس کا نام تجسیم ہے اور اس کے خالق جناب جوزف رفیق صاحب ہیں۔جو مژدہ سنانے کے لیے آئے ہیں۔مجھے ان کا کلام پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے وہ زیرک ناظر ہیں۔فن لوازم کا بخوبی استعمال جانتے ہیں۔کلام میں حلاوت بوجوہ احسن ہے۔ ندرت اور تخیل کی پروازی دوام کی طرح محسوس ہوتی ہے۔فاضل دوست نے شاعرانہ وصف کو صفحہ قرطاس پر مراسلاتی انداز سے منہمک بن کر تصورات کا عرق نچوڑا ہے۔تجسیم گلشن کا مطالعہ کرتے ہوئے گماں گزرتا ہے کہ شاعر نے جس دلکشی اور آمادگی کے ساتھ کائنات کی ہر شے کو زبان زد لانے کی کوشش کی ہے۔وہ آفاقی صداقتوں کو کشش ثقل کی کھینچنے کی قوت رکھتا ہے۔میں ایک ایک پگڈنڈی پر چلتا ہوں۔ صفحات پلٹتا ہوں۔آگے گزر جاتا ہوں۔میں بوریت اور تھکن محسوس نہیں کرتا بلکہ مطالعاتی ورد سے میری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مجھے قدم بہ قدم حقیقت پسندی اور مقصدیت کا احساس ملتا ہے۔ میں عارضی اور حقیقی دنیا کا بے لاگ تجزیہ کرتا ہوں۔ تجربات و مشاہدات کے بعد میری آنکھوں کے سامنے ایک مجسمہ بن جاتا ہے۔معلوم نہیں وہ روح کے بغیر ہے۔یا روح سے بھرپور ہے۔ دنیا کی کشش میں کھو کر عارضی اور فانی زندگی کو حقیقی اور دائمی زندگی سمجھ لینا دنیا میں وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔میں جیسے جیسے کتاب کے اوراق پلٹتا جاتا ہوں۔مجھے اس میں وحدت الوجود کا نظریہ نظر آتا ہے۔موصوف نے اپنی شاعری میں تصورات کو جس جذبہ سے تجسیم کیا ہے۔وہ آخرت کے احساس سے منور ہے۔
آج کے انسان نے اپنے دل کو طرح طرح کے توہمات سے جس طرح چھلنی چھلنی کر لیا ہے۔وہ گوشہ تنہائی میں گھائل
ہوتا دکھائی دیتا ہے۔انسان بھی کیا چیز ہے جو مختلف اوقات میں توہمات کو اپنے دل میں بساتا رہتا ہے۔پھر اس کے دل سے ایک غبار سا اٹھتا ہے۔اس میں پریشانیوں اور الجھنوں کے پہاڑ ہوتے ہیں۔جن کا بوجھ اسے اس قدر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔جیسے وہ کبھی راحت محسوس نہیں کرے گا۔ محسوسات کی رگوں میں مثبت اور منفی دونوں قوتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سی قوت کو مغلوب ہونے کا موقع دیتا ہے۔ایک شاعر کا کوئی بھی لکھا ہوا شعر حقیقی اور مجازی مفہوم کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔لیکن حقیقی معنی زیادہ قرین قیاس ہوتا ہے جو اپنے اندر دل جمی اور روحانیت کی بھاپ رکھتا ہے۔ اس ناقابل بیان حقیقت کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر پھیلی ہوئی افرا تفری ، انتشار، بدامنی اور بحران کا دور دورہ ختم ہو جاتا ہے۔اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

دنیا کو محسوس کرنے کا انضباط عقابی نظر سے ہو سکتا ہے۔انسان اسی وقت عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کر سکتا ہے۔جب اسے کائنات کی ایک ایک چیز میں رب کی تصویر نظر آئے۔ تلاش سے دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے۔رب تو بہت نزدیک ہے۔ یہ سعادت صرف محبت کی بدولت ملتی ہے۔ محسوسات کا قرض اتارنے کے لیے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔پھر یہی الفاظ انسان کی بصیرت و بصارت کے گواہ بن جاتے ہیں۔جیسے ایک غوطہ زن سمندر کی گہرائی جانتا ہے ۔اسی طرح ایک تخلیق کار بھی شعری لطافت کا ہنر جانتا ہے۔
موصوف کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کائنات کے حسن و جمال سے بہت زیادہ متاثر ہے۔اس کی شخصیت کا پرتو ایسے ہے جیسے پرانے زمانے کے یادگار لوگ ہوتے ہیں۔ فاضل دوست کی شاعری کا برتاؤ اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ مشرقی روایات کے علمبردار ہیں۔ان کے دل پر لکھی ہوئی کچھ ایسی روایات جو ان کی شاعری میں تجسم کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی روح میں پنپنے والے تصورات جسد خاکی کو سچائی کا مژدہ سناتے ہیں۔ ۲۱ویں صدی میں غزل نے جو شہرت حاصل کی ہے۔وہ تنہائی میں انسان کی بہترین رفیق ہے۔رفاقت و شراکت کا اعلی معیار قائم کرتی ہے۔ اگرچہ شاعری ایک احساس مہیا کرنے والی کلی ہے۔ اسے دیکھنے ، سونگھنے، پڑھنے اور گنگنانے سے جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ سکون جسم و روح کے لیے شفا کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک غزل کا معیار جتنا زیادہ لطیف ہوگا۔وہ اسی قدر سحر انگیزی کا ماحول پیدا کرتی ہے۔موصوف کی غزلیں پندونصاح کی چاشنی سے لبریز ہیں۔یہ آثار و کیفیات پیدا کرنے والی اس شمع کی مانند ہے۔ جس کی روشنی دور دور تک پھیل جاتی ہے۔فاضل دوست نے اپنی کتاب میں غزلیں اور قطعات شامل کیے ہیں۔قطعات باعنوان ہیں۔جو کسی خاص نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ان عنوانات کا مرکز آنکھیں ، محبت ، سکھ ، سفر ، دوستی اور خوشی جیسے موضوع شامل ہیں۔یاد کی بابت ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
(یاد)
جب بھی ہوتا ہے مجھے تیری خدائی کا ملال
نیند آنکھوں سے بہت دور چلی جاتی ہے
پھر تری یاد کی لوری ماں کی صورت
میری تنہائی میں آ کر مجھے بہلاتی ہے

موصوف تعلق کو ایک نعمت قرار دیتے ہیں۔تعلقات و روابط کا حدود اربع بیان کرتے ہیں۔ان کے تعلق کی معراج پر ایک خوبصورت قطعہ پیش خدمت ہے۔
( تعلق )
اب تو ہوئی ہے جب بھی سرراہ ہی ہوئی
ایک خواب ہو گئی ہے ملاقات پیار میں
تم نے سمجھ لیا تھا تعلق کو دل لگی
ہم پھر رہے ہیں اب بھی اس کے خمار میں

وہ خواہش کا کس طرح اظہار کرتے ہیں؟ پوری ہونے یا نا پوری ہونے کی بابت ان کا نکتہ نظر کیا ہے؟ ہر انسان اپنے ارادی فعال کے مطابق اظہار کی راہیں پیش کرتا ہے۔خواہشوں کا بھی ایک دیس ہے جس میں انسان شب و روز گزارنے کا عادی بن جاتا ہے۔اس کے جذبات میں قول و اقرار کی رگیں ابھرتی ہیں۔سیاق و سباق میں ظاہر کی گئی خواہش کا مطالعہ کیجئے۔

( خواہش)
دھند سی چھا گئی ہے آنکھوں میں
یہ کرشمہ ہے اس کی یادوں کا
خواہش پھر رہی ہے کھوئے
قافلہ ہے یہ بے مرادوں کا

قائرین کے تجسس کے لیے ان کی لکھی ہوئی ایک غزل مطالعتی غرض سے پیش کی جاتی ہے۔

وقت ایسا بھی زیست میں آیا
مجھ سے بچھڑا ہے خود مرا سایہ

ایک محبت ہے بوجھ لگنے لگی
ایک تعلق ہے جان کو آیا

اس قناعت پہ داد دے مجھ کو
چند یادیں ہیں میرا سرمایہ

مطمن ہے وہ بے وفائی پر
اور وفا کر کے میں ہوں پچھتایا

جب کوئی بات دل میں تھی ہی نہیں
کیوں مرے نام پہ وہ شرمایا

میری منزل سے ہٹ گئی ہے نظر
راستوں نے مجھے ہے الجھایا

خود رفیق اپنی لگ گئی ہے نظر
وقت اچھا اگر کبھی آیا
فاضل دوست نے شاعری کے تاریخی و سماجی پس منظر کو جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس تجسس کے پیچھے الہی روشنی اور فکر و فلسفہ کا گہرا مشاہدہ شامل ہے۔انہوں نے شاعری کو فکر کی پختگی اور فلسفے کی متانت سے پیش کیا ہے۔ وہ زندگی کی توانائی اور جذبے کی بھی پناہ قوت سے لبریز ہیں۔اگر جوزف رفیق کی شاعری کا فکری تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا وجود مادی بھی ہے اور روحانی بھی۔مادی وجود کشف ہے وہ زمین کی طرف کھینچتا ہے جب کہ روح کی لطافت آسمان کی طرف اٹھاتی ہے۔چنانچہ جو باتیں دل پذیر ہیں۔ وہ روحانی اسودگی کا باعث بنتی ہیں اور جو بے دل کرتی ہیں ان سے دل لگانا حماقت ہے۔تخلیق کار چونکہ حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔لہذا وہ اپنی شاعری کے ذریعے باطلی اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف قلمی جہاد کرتا ہے۔تجسیم کے اوراق میں قوموں کے لیے بیداری کا خاموش پیغام ہے۔چونکہ دنیا ہر انسان کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔گردش ایام کی طرح ہے۔خوشی و مسرت کی وادی ہے۔کامرانی و کامیابی کا جشن ہے۔ زمانہ کوئی بھی رنگ اختیار کرے۔انسان کے اندر کی خوابیدہ صلاحیتیں اسے ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔میں لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ شعری تخلیقات میں جذب و کشش کا شامان موجود ہے۔جب انسان کا ذہن مشرق و مغرب کی متعدد زبانوں کے رنگ و آہنگ سے مزین ہو تو انسان ایک عہد میں زندہ رہنے لگتا ہے۔شاعری میں جو وسعت موجود ہے ان کی بدولت انسان کی ہر بدگمانی تجسیم مژدہ کے ذریعے ختم ہو سکتی ہے
آخر میں فاضل دوست کے لیے الفاظ کا نزرانہ اس عقیدت کے ساتھ ادا کروں گا کہ شاعری زندگی کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔جذبات و محسوسات کے منجمند چشموں کو اپنی آگ کی تپش سے پگھلا دیتی ہے۔
...
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ کینٹ
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید