Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
عیبوں کی تلاش - فاختہ

عیبوں کی تلاش

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 8 پسند: 0

عیب کسی کمی، خامی یا نقص کو کہتے ہیں۔ یہ جسمانی نفساتی اور روحانی طور پر طور پر لاحق ہوتے ہیں۔ ان کا نہ کوئی موسم اور نہ کوئی سمت ہوتی ہے بلکہ یہ اچانک نمودار ہو کر زندگی کی دوڑ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اپنی شدت کے باعث زندگی کی خوب صورتی کو بدنمائی میں بدل دیتے ہیں۔ خبر نہیں یہ کہاں سے آ کر انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی اڑن جاری رکھتے ہیں۔انھیں جہاں بھی موقع ملتا ہے یہ جسم روح میں داخل ہو کر قابض ہو جاتے ہیں۔اگر اس بات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو عیب ایک عالم گیر سچائی ہیں۔ اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ، کیونکہ ہر انسان کسی نہ کسی عیب میں مبتلا ہے۔ یہ شخصی ، خاندانی ، معاشرتی اور قومی طور پر پائے جاتے ہیں۔اگر جسمانی اور روحانی آنکھوں سے دیکھا جائے تو دنیا میں کچھ لوگ پیدائشی طور پر معزور ہوتے ہیں ، کچھ حادثاتی طور پر ، کچھ جسمانی نقائص کی بدولت اور کچھ روحانی طور پر کبڑے ہوتے ہیں۔
اس حقیقت کے پیرائے میں ہر شخص کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ کسی نہ کسی عیپ میں مبتلا ہے۔ اس کیفیت کے باعث وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔ ہمارے جسم و روح میں عیبوں کی لاکھ رگیں ہیں جن کا پھیلاؤ سر سے لے کر پاؤں تک پایا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنے عیبوں کو
نفسیاتی طور پر تسلیم کرنے کا قائل نہیں بلکہ اسے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنا اچھا لگتا ہے جب کہ وہ اپنے عیبوں سے ہر وقت روح پوش ہوتا ہے۔ اسے اپنی ہر بات اچھی لگتی ہے جب کہ دوسرے کی ناگوار۔ وہ ہمیشہ اپنی بات کو ترجیح دیتا ہے جب کہ دوسرے کی باتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ زندگی کے اس مختصر سفر میں انسان اپنی انا کی ذات میں غرق ہو کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ وہ تاریک راہوں میں گم ہو جاتا ہے۔ گناہ سے ہاتھ ملاتا ہے۔ ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرتا ہے۔ عیب جوئی اس کی فطرت کا بگاڑ بن جاتی ہے۔اسے جہاں بھی دیکھو چغل خوری کا کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ہمیشہ دوسروں کی آنکھ کے تنکے نظر آتے ہیں جب کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ یہ انسانی فطرت کی دو رنگی تصویر ہے جس کا عکس عیب دیکھنے سے بنتا ہے۔

یہ قدرتی بات ہے کہ انسان کی نفسیات کے ساتھ جو بات نتھی ہو جائے وہ عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ اسے لاکھ دھوئیں اس کی نشان نہیں اترتے۔ چھوڑنے کی لاکھ جتن کریں وہ چھوٹتی نہیں۔ اس حقیقت کے پیچھے اعداد کا بڑا بوجھ ہے کیونکہ جو عادات ایک دفعہ پیوستہ ہو جائیں وہ پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ انسان ہمیشہ بدگمانی میں گرا رہتا ہے۔ کیونکہ اس کے اندر تہذیب کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ روحانی اقدار سے خالی ہوتا ہے۔بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے۔ خود احتسابی کو بھولا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن پر موج مستی کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ اس کا ماحول اور معاشرہ اسے اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے عیبوں کو تلاش کر سکے۔کیونکہ اس نے اپنے ارد گرد ہمیشہ دوسروں کی خامیوں کا تذکرہ سنا ہے۔ لہذا وہ بھی اسی راہ سے گزرتا ہے۔ یہ ہماری معاشرتی زبوں حالی کا المیہ ہے۔ انسان نے اپنی ذات کو ٹٹولنے کی بجائے ہمیشہ دوسروں کی خامیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
انسان اپنے سماج میں بہت سے تندرست اور بہت سے عیبوں میں مبتلا لوگوں کو دیکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپنی ذات پر نظر ڈالے۔ قدرت نے اسے کن کن خوبیوں سے نوازا ہے اور کن کن خامیوں میں مبتلا کیا ہے۔اس سلسلے میں میرا ذاتی قول پیش خدمت ہے۔

دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے*
* ان عیبوں کو اپنی ذات ڈھونڈو

جس دن انسان نے قانون قدرت کو سمجھنا شروع کر دیا۔اسی دن سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ اس کی زندگی کا مثبت سفر شروع ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں پر بے جا تنقید کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ شخص سے شخصیت بن جاتا ہے۔ اس پر رب کے کرم کی نظر ہو جاتی ہے۔ وہ دل فریب دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسے ہر شخص اچھا لگنے لگتا ہے۔ وہ حسد کرنے کی بجائے خوش ہوتا ہے۔اپنی شگفتہ بیانی کے باعث وہ دوسروں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے۔فقط ایک ناسور کو فطرت کے نرم شگوفے سے اتار کر دیکھ لیجئے۔وہ معاشرے میں اپنی خوشبو بھی بکھیرے گا اور دلوں کو فرت بھی پہنچائے گا۔اگر ہم فتنوں کی دلدل سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرنے کی بجائے انہیں اپنی ذات میں تلاش کرنا چاہیے۔کیونکہ حقیقی عدالت وہی ہے جسے اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔تب ہی ہماری زندگی میں تبدیلی کی لہر آئے گی۔پھر ایک نیا ماحول اور معاشرہ ہوگا۔ زندگی کے گلشن میں خوشی کا سماں ہوگا۔حق سچ کی جیت ہوگی۔ہم مذہبی ، سماجی ،اور روحانی طور پر مضبوط بنیں گے۔
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید