Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
قانون کی پاسداری۔۔۔ - فاختہ

قانون کی پاسداری۔۔۔

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 42 پسند: 0

دنیا کا کوئی بھی ملک ،خطہ اور معاشرہ ہو۔وہاں قانون کا
ہونا احتساب کی علامت ہے۔اگر اس بات پر دل جمی سے غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں قوانین موجود ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے لیے ادارے قائم ہیں جو معاشرتی سدھار میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر ریاست کے الگ الگ قوانین ہیں۔انھی قوانین کی روشنی میں ادارے فعال ہو کر اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔احتساب یا مواخذہ انسان کو بدی سے روکتا ہے۔ سزا کے باعث انسان کی تربیت ہوتی ہے تاکہ وہ آئندہ جرائم کا مرتکب نہ ہو۔ ہر جرم کے مطابق اس کی سزا کا تعین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹریفک قوانین توڑنے والوں کو جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ اس طرح قتل و غارت کرنے والوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ جرائم کی روک تھام کے لیے محکمہ پولیس اور عدالتوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ احتساب کے کئی اور ادارے بھی بنائے گیے ہیں۔مثلا صوبائی اور وفاقی محتسب جو درخواست گزار کی شکایات کا ازالہ کرتے ہیں۔

دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے ہر انسان کے پاس ضمیر ہے جو اسے نیکی اور بدی کے تصور سے آگاہ کرتا ہے۔ ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے۔مثال کے طور پر اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہوتے ہیں۔اگر اساتذہ غفلت کرتے ہیں تو تعلیمی اداروں کے سربراہان ان سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔اسی طرح اگر تعلیمی اداروں کے سربراہان کوئی کوتاہی کریں تو محکمہ تعلیم ان کی کوتاہی پر انھیں خبردار کرتا ہے اور سنگین جرائم کی صورت میں سزا دیتا ہے۔

یقینا کسی بھی ملک کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ان قوانین کی روشنی میں احتساب کیا جاتا ہے۔ احتساب کے لیے باقاعدہ تفتیشی ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔جو جانچ پڑتال کے بعد مکمل رپورٹس پیش کرتی ہیں۔
اس کی ایک مثال کھلی کچہریوں کا انعقاد بھی ہے۔یہاں ہر فرد کسی بھی انتظامی ادارے کے بارے میں اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔ان شکایات کے ازالے کے لیے باقاعدہ وفاقی اور صوبائی سطح پر محتسب ہوتے ہیں جو مکمل جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ پھر احکامات صادر کرتے ہیں۔ کیونکہ احتساب کرنے والوں کو اعلی اختیارات بھی دیے جاتے ہیں۔ تاکہ انتظامی امور بہتر سے بہتر ہوتے جائیں۔

مختلف معاشروں اور ممالک کی تاریخ کے مطالعہ اور مشاہدہ سے اس بات کا مکمل پتہ چل جاتا ہے کہ ان میں احتساب کا عمل ہے یا نہیں۔چنانچہ جن ممالک اور معاشروں میں قانون کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔وہاں جرائم کی شرح برائے نام رہ جاتی ہے۔ جرائم میں کمی لانے کے لیے معاشروں میں ایسے ادارے بھی قائم ہیں جو انسان کی ذہنی تربیت کرتے ہیں۔جن کے باعث جرائم میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک اور معاشرے کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قانون کی پاسداری کرنا ہوگی۔ مجرموں کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا پڑے گا۔ رشوت سے گریز کرنا ہوگا۔
یقینا انصاف کا جھنڈا لہرانے کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ ان پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی زندگی کے منشور میں قانون کی پاسداری کو شامل کر لے تو معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ پاکستان کو امن محبت اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کے لیے تبدیلی اپنی ذات سے شروع کرنی ہوگی۔ کیونکہ جب ہم اپنی ذات کا احتساب کرنا شروع کرتے ہیں تو دوسروں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حالات پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔اگر ہر انسان اپنی زندگی میں ایمان کی آنکھیں سے دیکھے تو اس کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

کہتے ہیں انسان کو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ مایوسی تاریکی اور اندھیرا ہے۔ یقینا ایمان کے بل بوتے آزمائشوں کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ اگر ہر محکمہ اور انسان احساس ذمہ داری کا فن سیکھ لے۔ قوانین کا احترام کرنا سیکھ لے۔قوانین کو اپنے ہاتھ میں نہ لے ۔بلکہ محکمے آزادانہ اور خود مختار فیصلے کر کے انصاف کی روشنی پھیلا سکیں۔یہ ہمارا مذہبی، معاشرتی، سماجی اور تہذیبی حق ہے۔آئیں سب مل کر قانون کی بالادستی اور ملک کی خوشحالی کے لیے کام کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید