Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
کسی کو حقیر نہ جانیں۔۔۔ - فاختہ

کسی کو حقیر نہ جانیں۔۔۔

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 53 پسند: 0

کوئی بھی معاشرہ ہو وہ اپنی تہذیب و تمدن کی بدولت پہچان کا گہوارہ بن جاتا ہے۔اس میں بسنے والی قومیں اپنے اعمال کی بدولت اسے خوبصورت یا بدصورت بناتی ہیں۔اگر معاشرے کی پگڈنڈیوں پر چل کر دیگر برائیوں کی طرح حقارت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک بے قابو دیمک ہے ۔اس نے لوگوں کی فطرت میں خوب پرورش پا کر اعمال کی صفات کو چاٹا ہے ۔اذہان و قلوب سے صادر ہونے والے تصورات اپنی پہچان کے آمین ہوتے ہیں۔ان کی سمت مثبت ہو یا منفی۔ وہ اپنے اثرات ضرور مرتب کرتے ہیں۔یقینا تصورات ہماری سوچ کی نقل و حمل کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔آیا وہ کتنے طاقتور یا بے جان ہیں۔ معاشرے کی خوب صورتی میں امن بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس صفت کی بدولت معاشرے کی زبوں حالی دریافت ہوتی ہے۔پھر نتائج کو دیکھا جاتا ہے۔ جونہی ہم دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ہر انسان کی الگ نفسیات ہے۔وہ اپنی اپنی سوچ کے مطابق زندگی کے سفر پر گامزن ہیں ۔ قدرت نے اس کے دائیں ہاتھ میں اچھائی اور بائیں ہاتھ میں برائی کی چھڑی دی ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت میں فہم و فراست کی پرتیں موجود ہیں۔جو اس کے عقلی دلائل اور حسن معاشرت کے متمنی ہوتے ہیں۔ وہ مشاہدات کی آڑ میں ان کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ شعور و آگاہی کے خوب صورت گل دستے سے مثبت خیالات کی پنکھڑیاں پھوٹتی ہیں۔جو اپنی خوشبو کی بدولت محبت کا احساس مہیا کرتی ہیں۔جیسے جیسے انسان قدرت کے قریب رہنا شروع کرتا ہے۔اس کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔وہ خوف خدا میں زندگی گزارتا ہے۔اسے آس پاس کے لوگوں سے محبت ہو جاتی ہے۔وہ خیالات کی مثبت غذا کھانے کا عادی بن جاتا ہے۔وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ دوستانہ ماحول میں گفتگو کرتا ہے۔لیکن اس کے برعکس دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی فطرت میں گندے جوہڑ بن جاتے ہیں۔ جن کے قریب جانے سے بدبو آتی ہے۔ایسے لوگوں کی سوچ سے ہی کانٹوں کی چھبن کا احساس ملتا ہے۔وہ اپنے ہر فعل سے پہچانے جاتے ہیں۔ہر انسان کی آنکھ کا مشاہدہ فرق ہے۔کسی کی آنکھوں میں محبت بھرے لمحات کا عکس اور کسی کی آنکھ میں نفرت کی میل ہوتی ہے۔یہ جدا جدا آثار و کیفیات ہیں، جو ہمیں بے بوجھ یا بوجھ تلے دباتی ہیں۔حقارت ایک خاموش معاشرتی ناسور ہے۔اس کا عکس سب سے پہلے ہماری آنکھوں میں بنتا ہے۔پھر چہرے سے تاثرات کی سلوٹیں مختلف اشکال کو ظاہر کرتی ہیں۔دنیا کی حقیقت جاننے کے لیے معاشرے کا مطالعہ ضروری ہے۔نفسیات کی سمتیں دریافت کرنا ضروری ہیں۔ اعمال و کردار پر غور و خوض کرنا انتہائی اہم پیش رفت ہے۔یہی چیزیں ہماری رشد و رہنمائی کرتی ہیں کہ ہماری نفسیات کا رخ کس سمت ہے۔ قدرت ہمیں اس بات کا بے باکی سے درس دیتی ہے کہ دنیا میں سب انسان برابر ہیں۔ان میں ایک ہی طرح کا خون ہے۔لیکن عادات ،عقائد اور نظریات فرق فرق ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے منفرد بناتے ہیں۔زندگی کی یہی خوب صورتی ہے کہ ہم میں سے کس کے اعمال کا گھونسلا خوبصورت یا بد نما ہے جو آندھیوں اور آزمائشوں کے بعد گرتا یا قائم رہتا ہے۔لیکن قدرت ہمیں اس بات کی تنبیہ کرتی ہے کہ کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔بلکہ سب کے ساتھ میل ملاپ رکھیں۔عزت و وقار کا رشتہ قائم کریں۔یہی انسانیت کی معراج ہے جو ایک انسان کو قائم رکھتی ہے۔اسی ڈگر پر چلتے ہوئے وہ خدا کی مرضی بجا لاتا ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں کہ جن لوگوں کی فطرت میں غرور کا کانٹا تھا۔وہ کس طرح تباہ و برباد ہوئے۔ان کا خاندانی شیرازہ کس طرح بکھر گیا۔وہ در بدر ہو گئے۔وہ تنکوں کی مانند بکھر گئے۔ان کا وصف و وزن کم ہو گیا۔خدا اپنی صفات میں یکتا اور رحیم و غفور ہے۔جب ہم بولتے ہیں تو ہمارے الفاظ میں مٹھاس ہونی چاہیےکیونکہ وہ سختی نہیں بلکہ محبت پسند کرتا ہے۔وہ غم نہیں بلکہ خوشی محسوس کرتا ہے۔وہ تہمت نہیں بلکہ اعتماد پسند کرتا ہے۔وہ ہمارے سماجی رویوں کو دیکھتا ہے۔ان کی ترکیب و ہیت پر غور کرتا ہے۔ان میں کتنی نرمی، شفافیت اور تہذیب ہے؟ کیونکہ پھل ہمیشہ جھکے ہوئے درخت کو لگتا ہے۔جبکہ اکڑا ہوا درخت بے پھل ہوتا ہے۔ وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ہماری معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔محبت اور شفقت والے ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ان کی احساس کمتری ختم کرنے کے لیے احساس برتری کا خول توڑنا ہوگا۔تب ہی ایک پرامن اور تہذیب و تمدن پر مبنی معاشرہ وجود میں آئے گا۔جب تک انسان اپنی زندگی سے غیر مہذب رویوں کی کانٹ چھانٹ نہیں کرتا اس وقت تک وہ معاشرے کا بہترین رکن نہیں بن سکتا۔حالات و واقعات ہمارے سامنے ہیں۔اگر انسان اپنی فطرت کی کوتاہیوں کو پس پشت ڈال کر انسانیت کی طرف قدم بڑھاتا ہے، تو یہ اس کا مثبت قدم ہے جو اسے کامیابی عطا کرتا ہے۔انسانیت ، بشریت اور آدمیت کی لاج کے لیے کسی بھی انسان کو حقیر نہ جانیں۔ چونکہ قدرت نے ہر انسان کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔کیونکہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے تفریق کا ایک بڑا گراف ہے جو ہماری سوچوں کے ساتھ نتھی ہے۔آج وقت کی ضرورت کے مطابق بدلنے کا موسم ہے۔انسانی فطرت کو خوب صورت رنگوں میں رنگنے کے لیے قانون قدرت کے اصولوں کی پیروی کرنا پڑتی ہے۔یقینا معاشرتی ناسوروں کو ختم کرنے کے لیے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں۔سوچوں کو بدلنا پڑتا ہے۔راستے ہموار بنانا پڑتے ہیں۔تب کہیں جا کر بگری فطرت سے تضادو تعارض کی فضا ختم ہوتی ہے۔جب تک انسان کی فطرت میں دو رنگی باتیں موجود ہیں اس وقت تک معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔لہذا اگر ہم اپنے معاشرے کو پرامن بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے منفی رویوں کو قربان کر کے زندگی کے دریا کو رواں دواں کرنے کی ضرورت ہے۔آئیں آگے بڑھیں۔ ہاتھ ملائیں۔حقارت کا پرچہ پھاڑ دیں۔قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع کر دیں۔تبدیلی کے پہلے موسم کو اپنی ذات سے شروع کریں۔
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید