Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
انسان دوست پالیسیوں کی ضرورت - فاختہ

انسان دوست پالیسیوں کی ضرورت

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 155 پسند: 0

انسان دوست پالیسیوں کی ضرورت
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسان دنیا میں مسافر اور پردیسی ہے ۔یہ اس کا اصلی وطن نہیں ہے بلکہ عارضی قیام گاہ ہے ۔بدلتی رتوں اور موسموں نے نئے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے مواقع پیدا کیے ہیں ۔انسان اس حقیقت کو مانے یا نہ مانے یہ اس کے من کا سودا ہے ۔دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے ۔ممالک خوراک، رہائش ، ذرائع اور ضروریات زندگی کی تمام ضرورتیں پوری کرنے سے پریشان ہیں ۔اگر ہم یورپی ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں برسوں سے عوام دوست پالیسیاں رائج ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ واقعی اگر اس بات کو چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا جائے تو سہولیات کی ریل پیل ہو سکتی ہے ۔دنیا میں جنت کے خواب کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اس دنیا میں جنت جیسا ماحول کائنات کی رنگینیوں کے ساتھ فروغ دیا جا سکتا ہے ۔اعلی صفات کا جال بچھا کر دعوت امن دی جا سکتی ہے ۔ جرائم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔حالات بہتر کیے جا سکتے ہیں۔رشوت ختم کی جا سکتی ہے۔
فلاح و بہبود کے منصوبے فروغ دیے جا سکتے ہیں۔کیونکہ دنیا میں ہر وقت حالات کی کشیدگی کا رونا دھونا لگا ہوا ہے کہ ماحول اور معاشرہ بہت ابر الود اور خراب ہو رہا ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں عروج پر ہیں۔ درجہ حرارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ظلم و ستم حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے ۔اخلاقی قدروں کی پامالی ہے ۔انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔انسان دوستی پالیسیاں ناپید ہو گئی ہیں ۔محبتوں میں واضح کمی آگئی ہے۔خود غرضی عام ہو گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں ۔روح میں مایوسی اور تاریکی ہے ۔اخلاق کی دولت ختم ہو چکی ہے ۔وسائل کی کمی کے باعث لوگ کھچے کھچے رہتے ہیں۔ماحول میں الجھاؤ اور تناؤ ہے ۔فتنہ بازیاں عام ہیں ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی چہ مگوئیاں ہیں۔دردناک قصے شور و گل مچاتے ہیں۔فتنے ڈالنے کی روایت پختہ ہو چکی ہے۔ظلمتیں اور دہشتیں ہر سو ہیں ۔بے دینی کے بڑھ جانے سے محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔شکوؤں کی سرگوشیاں خوب کی جاتی ہیں۔عوام الناس کو غلامی میں جکڑنے کے کئی نفسیاتی طریقے نالہ کناں ہے۔اگر اس بات کا فکری جائزہ لیا جائے تو انسانوں کی بے قدری ہے ۔ماحول دوست پالیسیاں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔بلکہ عوام پر بوجھ پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے تاکہ چلنے پھرنے سے بھی عاری ہو جائے ۔ روٹی کپڑا اور مکان ایک خواب بن گئے ہیں ۔ پانی کے ذخائر میں واضح کمی آ رہی ہے۔ جسم و روح احساس سے خالی ہو گئے ہیں۔امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔مساوی حقوق کی پامالی ہے ۔اس سماج پر یہ کہاوت بھی پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔غریبوں کی نہ عدالتوں میں شنوائی ہے اور نہ حکمرانوں کہ محلوں میں ۔ انسان غلامی کی زنجیروں میں قید و بند کی صحبتیں برداشت کر رہا ہے۔ عصر حاضر میں غربت نے جینا محال بنا دیا ہے ۔ بجلی کے بلوں نے خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے ۔عام انسان کی بھی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو رہیں۔قصہ تعجب خیز ہے ملک کو ایسی متوازن معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسی صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایک دیرپہ پالیسی کی ضرورت ہے جہاں لوگ اپنا اپنا گھر بنا سکیں ۔اپنے بچوں کو باآسانی تعلیم و تربیت دلوا سکیں۔روٹی کپڑا اور ملازمتیں حاصل کر سکیں ۔ ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا ۔جب انسان دوست پالیسیاں لاگو کی جائیں گی ۔ جب قومی زبان رائج ہو جائے گی تو معاملات آسان ہو جائیں گے۔لیکن اگر مہنگائی کا جن بے قابو رہے گا تو وہ کمائی کا پھل کھاتا رہے گا ۔کنگالی اور تنگدستی عروج پر پہنچ جائے گی ۔معموری و محکومی کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے حالات اور وقت کے مطابق فیصلے نہ کیے ۔تو زندگی کی ہر قدم پہ پچھتاوا ہوگا ۔ہمارا ہر فیصلہ متزلزل ہو جائے گا ۔ امید و بہار جاتی رہے گی ۔یقینا ایک فیصلے سے فاصلے ختم کیے جا سکتے ہیں ۔ وہ بھی اس صورت میں ممکن ہوگا جب دل میں ہمدردی ، محبت ، خدا ترسی اور انسانیت کی قدر ہوگی۔اگر ہر انسان اپنی اپنی جگہ ذمہ داری قبول کر لے تو غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔بے روزگاری ختم ہو سکتی ہے۔خوراک کی قلت پوری کی جا سکتی ہے ۔اداروں کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔امید کی شمع روشن کی جا سکتی ہے ۔فقط مجموعی سوچ کی ضرورت ہے جب یہ پروان چڑھے گی تو بگڑے حالات خود بخود ٹھیک ہونے لگ جائیں گے ۔آئیں مل جل کر اس خواب کو پورا کرنے کے لیے دن دگنی اور رات چگنی محنت کریں ۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید