Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
نئی گفتگو نئے پھول! - فاختہ

نئی گفتگو نئے پھول!

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 71 پسند: 0

نئی گفتگو نئے پھول!
اظہار و عقیدت صدیوں پرانی روایت ہے۔لیکن ہر دور میں اس کے نت نئے انداز سامنے آئے ہیں۔ علم و ادب سے محبت رکھنے والے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے لیے نئے طرز احساس کا سہارا لیتے ہیں۔اس ضمن میں تخیل کی بلند پروازی تاثیر کی رنگ و خوشبو ضرور مہیا کرتی ہے۔ یہ ایک فطری الجھاؤ ہے کہ ہر انسان کے اندر جدا جدا آثار و کیفیات کا جم غفیر موجود ہے۔ اس عمل کو فروغ دینے کے لیے قلب و ذہن آبیاری کے بہترین چشمے ہیں۔ جب یہ پھوٹتے ہیں تو یہ قدرتی آب و تاب کے ساتھ ہر انسان تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔روز اول سے علم و ادب سے وابستہ لوگوں کا یہ شیوا رہا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے کتاب لکھنے کا سہارا لیتے ہیں۔حضرت انسان نے جب سے قلم تھاما ہے۔ وہ اپنے تصورات ، جذبات اور تخیلات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے قلمی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔
اس عمل کو سحر انگیز بنانے کے لیے ترقی پسند ادباء اور شعراء نے زندگی کے جملہ مظاہر کو جس خلوص اور دردمندی سے باہم مربوط کیا ہے۔یہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں۔وہ اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر اور بنی نوع انسان کو ایک ایسی جمیعت اور کلیت کے ساتھ معتبر انداز میں پیش کر دیتے ہیں۔ پھر ان کی تاثیر قاری کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر کر اپنائیت کا احساس مہیا کرتی ہے۔تخلیقی پرچار خیالات میں ندرت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔
ان کے منفرد اسلوب کی اساس ان کے وہ مسحور کن تخلیقی تجربات ہیں جو ان کے داخلی اور خارجی نوعیت کے جذبات کے آئینہ دار بن کر سامنے آئے ہیں ۔ یقینا یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان کی سوچ کا محور اس کے جذبات کی بدولت قائم ہوتا ہے۔پھر تخلیق فن کے لمحوں میں ڈھل کر اپنے تخیل کی جولانیاں دکھانے پر حسرتوں کا جہان آباد کر لیتی ہے۔ یوں قاری کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ایک شاعر مسیحا کی صورت میں مرہم بدست اس کی غم خواری کے لیے آیا ہے۔انسان کے چوگرد محسوسات کی ہوا جتنی زیادہ تیز چلتی ہے۔اس کے اسلوب میں اتنے ہی زیادہ پرخلوص جذبات، احساسات ، مسائل زیست کا ادراک اور محبت و وفا کا ایک ارفع معیار بنتا جاتا ہے۔ جو انہیں اپنے عہد کے منفرد اور ممتاز تخلیق کار کے منصب پر فائض کر دیتا ہے۔ شعر و سخن کی ایک تابندہ روایت ہے۔ اسے قائم و دائم رکھنے کے لیے نسل در نسل شعراء نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حقیقت کے پس پردہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ مٹنے والی درخشاں روایت ہے۔حریت فکر کی اس لازوال روایت سے جو چشمے پھوٹے ہیں۔ وہ سدا بہار اپنا بہاؤ جاری رکھتے ہیں۔ بجلی گرنے اور گرانے کا الگ الگ عمل ہے۔ اس میں شر اور خیر کہ الگ الگ سمت ہے۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس سمت سفر کرنا چاہتا ہے۔ فسطائی جبر نے معاشرتی زندگی میں جو خوف کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔اسے گرانے کے لیے قلب و ذہن کو جب تک" نئی گفتگو اور نئے پھول " پیش نہ کیے جائیں۔ اس وقت تک تبدیلی کی لہر نہیں آتی۔ اسی احوال کی عصر حاضر کی ایک تابندہ شخصیت ایوریسٹ جان بھی ہے۔ وہ اپنی پرنم آنکھوں سے جو کچھ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اسے اپنی شاعری میں بیان کرنے کی حتی المقدور جستجو کرتے ہیں۔ ہزار خوف کے باوجود بھی ان کی زبان ہمیشہ ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔ امریکہ چلے جانے کے بعد بھی ان کا دل پاکستانی ادب و ثقافت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ان کے جذبات کی للکار اور حریت فکر کی پیکار عوامی امنگوں کی ترجمان بن کر نظر آتی ہے۔ میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ فاضل دوست کی شاعری میں انسانیت کا وقار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ روحانی احساس کی تپش موجود ہے۔آفاقی تعلیمات کا پرتو موجود ہے۔ یقینا ایک باضمیر انسان جبر کے حبس زدہ ماحول میں جب فکری توانائی کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے تو حق و انصاف کی بالادستی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ فاضل دوست نے اپنی شاعری میں جن موضوعات کو فضاؤں میں پیش کرنے کی زحمت گوارا کی ہے۔ ان کی حرف صداقت تخلیقی عمل کو مزید جلا بخش دیتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں فاضل دوست کی شاعری کے تجربات کو دروں بینی کے مرہون منت ہیں۔ ان کے تجربات و مشاہدات میں متعدد جہات کی روانی و سلاست ہے۔ان میں تنوع اور صد رنگی کیفیت قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔
انہوں نے ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی غرض سے جس چشم کشا صداقتوں اور حیران کن تجربات کو جس خلوص اور دردمندی سے اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ان کی بدولت قاری کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے تجربات و مشاہدات کو محض انفرادی نوعیت کے حامل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز، سماجی ارتعاشات ، تہذیب و ثقافت بلکہ تاریخی عوامل سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔ مطالعاتی ورد کے دوران میرے ذہن پر جو محسوسات کا قرض تھا۔میں نے اسے فرض شناس نوکر کی طرح اتار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے قلم کی ناموس پر بھرپور توجہ دی ہے۔جو ان کے سماجی شعور کی پختگی کا تعین کرتا ہے۔ کتاب کے تمام تر جزئیات اپنی فکر و فن کی اساس بنا کر حقائق کو بڑی مہارت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
اظہار کی ندرت اور اثر آفرینی کی مسحور کن کیفیت کے اعتبار سے ان کا اسلوب اس قدر دلکش ہے کہ خزاں کے سینکڑوں مناظر کی موجودگی کے باوجود بھی وہ طلوع صبح بہاراں کی نوید سناتے ہیں۔ میں ان کی تخلیقی کاوش کو افق پر منڈلاتے دیکھتا ہوں۔ امید واثق ہے ان کی غزلیں نظمیں اور قطعات اس عزم کی یاد دلاتے رہیں گے کہ تخلیق عرش بریں کا وہ شگوفہ ہے جو روایت کا حامل بھی ہے اور تخیلات و جذبات کا گہوارا بھی۔ میں فاضل دوست کو "گفتگو تجھ سے سہی " جیسی نایاب کتاب لکھنے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید