Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
خدا پرست نسل کی ضرورت - فاختہ

خدا پرست نسل کی ضرورت

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 217 پسند: 0

خدا پرست نسل کی ضرورت
دنیا کی مجموعی صورتحال نہ گفتہ بے۔برگشتگی اور گناہ کا زور ہے۔بے راہ روی زوروں پر ہے۔حقیقی محبت کا فقدان ہے۔لڑائی جھگڑے عام ہیں۔بچے نافرمان ہیں۔سوشل میڈیا کے دیوانے ہیں۔تعلیم و تربیت سے ناواقف ہیں۔ عزت و احترام برائے نام ہے۔مذکورہ چند باتوں کے اثبات کے بعد تعلیم و تربیت کی فضا دھندلی نظر آتی ہے۔یہ بڑا اہم سوال ہے کہ نسل نو کی خدا سے دوری کیوں ہے؟ کیونکہ اصل میراث تو بچے ہیں۔جن کا جسمانی ، اخلاقی اور روحانی معیار ہی بدل گیا ہے۔اگر اس حقیقت کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان کا کردار خاندانی ترقی سے لے کر ملکو ملکوں سفر کرتا ہے۔یہ ہمارے ماتھے کا جھومر اور معاشرے کی روح ہوتے ہیں ۔ اگرچہ والدین کے کندھوں پر تربیت کا بوجھ ہوتا ہے۔جو جب تک اتار نہ دیا جائے قرض ختم نہیں ہوتا ۔ قرض تو قرض ہوتا ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی۔بہرحال اس سلسلے میں خلاصی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔
اگر ہم موجودہ دور کا تجزیہ کریں تو ہمارے معاشرے کی زبوں حالی دردناک قصے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اسے کان کھول کر سننے کی ضرورت ہے۔اگر سنیں گے نہیں تو سوچ کہاں سے آئے گی؟ ماحول میں تبدیلی کی فضا کیسے قائم ہوگی؟ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے شب و روز خیال کی طرح گزر جاتے ہیں۔کیونکہ زندگی پانی کی طرح ہے جو گرنے کے بعد اکٹھا نہیں ہوتا۔بخارات کی طرح ہے جو فضا میں بہت جلد تحلیل ہو جاتے ہیں۔گھاس کی مانند ہے جو بہت جلد سوکھ جاتی ہے۔پھول کی طرح ہے جو بہت جلد کملا جاتا ہے۔ یہ باتیں اپنے اندر حقائق کا ذخیرہ رکھتی ہیں۔انسان سب کچھ جاننے کے باوجود بھی حیلے بہانوں کا مرتکب ہے۔بے شمار عذر پیش کرنے کا عادی ہے۔لیکن گناہ چھوڑنے کا اقرار نہیں کرتا۔اگر توبہ کر بھی لیتا ہے تو وہ چند دنوں کے لیے۔پھر وہی پرانی حالت۔رونے دھونے کا واہ ویلہ۔ تجربات و مشاہدات اس بات کا پردہ چاک کر رہے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل ایسے تجربات و مشاہدات میں غرق ہے۔جہاں بدگمانی کی لہریں ہیں۔ان کا مستقبل تاریک ہے۔وہ بری صحبتیں میں مبتلا ہیں۔ذہن شہوت پرستی کا جنگل ہے۔برے خیالات کا رقص ہے۔جسم و روح کی ناپاکی ہے۔بےہودگی اور بے مروتی ہے۔گناہ کے انبار ہیں۔شرارت کی توپیں ہیں۔ہٹ دھرمی اور شور و گل ہے۔محبت رسمی اور لمحاتی ہے۔اپنی دنیا میں پھنسے ہوئے بچے اور جوان اپنی من مرضی کے باعث خیالات کے بارود میں لپٹے ہوئے ہیں۔انہیں پتہ نہیں یہ کب چل کر تباہ و برباد کر دے گا۔جگہ جگہ ایسے دردناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جو دل خراش ہونے کے ساتھ ساتھ قیامت خیز بھی ہیں۔گلیوں اور بستیوں میں عجیب و غریب ماحول ہے۔ایک طرف غربت ہے اور دوسری طرف گناہ کی دلدل۔نشے کی وبا مقدر کو سزا دے رہی ہے۔ بیچارے والدین نوحہ کناں ہیں۔ آنکھوں میں بے بسی کے آنسو ہیں۔ہرسو نفسا نفسی ہے۔کہیں شور اور کہیں خاموشی ہے۔شرارتیں عروج پر ہے۔گلیوں میں ٹھٹھا بازی کی آوازیں گھروں کی چوکھٹوں سے ٹکرا ٹکرا کر دستک دے رہی ہیں۔ خطا کار تو ایک طرف ہر سو خطا کاروں کی کثرت ہے۔معاشرے میں زہر ناکیوں کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ ہاتھوں میں امن کے عصا کی بجائے بندوق ہے۔چاقو اور چھریاں ہیں۔حجتوں کے قصے ہیں۔
منہ سے سگرٹ نوشی کا دھواں اٹھ رہا ہے۔شراب نوشی اور جوا عام ہے۔
جو بچوں ، والدین اور معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
یقینا ماحول معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ہمارے ہاں یہ بھی قصہ معنی خیز ہے کہ ہماری روز مرہ زندگی میں ابلیس کو نا پاک روح سمجھا جاتا ہے۔لیکن ہمیں ناپاک عزائم نظر نہیں آتے۔ بلکہ ہم روز بروز طرح طرح کی علتوں ، ناچاکیوں، بدیوں اور منفی ہتھکنڈوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
یوں لگتا ہے نوجوان نسل بے سمت سفر کی عادی ہو رہی ہے۔حد سے زیادہ لاڈ پیار نے بگاڑ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔یہ بوکھلاہٹ کی کھلی تصویر ہے جسے ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم الہی متن کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا جائزہ لیں تو وہاں بڑی صاف صاف باتیں لکھی ہوئی ہی۔مثلا امثال کا مصنف رقم طراز ہے۔
" بچے کی تربیت اور راہ پر کر جس راہ پر اسے جانا ہے تاکہ وہ بوڑھا ہو کر بھی اس سے نہ مڑے" (امثال 22: 6)
اگر والدین بچپن سے ہی تعلیم و تربیت کو لاگو کرنے کا عہد کر لیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ابلیس سے جنگ لڑ سکتے ہیں۔فتح یاب ہو سکتے ہیں۔خدا پرست نسل فروغ دے سکتے ہیں ۔ان حالات و واقعات کی روشنی میں روئ زمین پر ایک ایسی نسل کی ضرورت ہے جو خدا کو اولین درجہ دے۔تاکہ آنے والی نسلیں اس بات سے بخوبی واقف ہو سکیں کہ ہم زندہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔وہ ہماری سنتا ہے۔جواب دیتا ہے۔دکھوں سے بچاتا ہے۔گناہوں سے پاک کرتا ہے۔حفاظت کرتا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کہ ایسے خطوط پر پرورش کی جائے جو واقعی خدا پرست بن جائے۔ان کے خیالوں میں خدا ہو ، ہاتھوں میں کتاب مقدس ہو ، پاؤں میں صلح کی خوشخبری کے جوتے ہوں ، بدروحیں بھگانے کے لیے روح القدس کی طاقت ہو ، شاگرد بننے کا جذبہ ہو ، وقت کی پابندی کی عادت ہو ، روحیں جیتنے کا جذبہ ہو ، ماہی گیر سے آدمگیر بننے کا درد ہو ، زبان میں سچ کی تاثیر ہو ، ہونٹوں پہ خدا کا نام ہو ، خیالات میں پاکیزگی ہو۔الغرض ! خدا پرست نسل کا منشور ہماری زمین کو امن کی فضا میں بدل دے گا۔ایک بہت خوبصورت گیت جو کبھی عبادت گاہوں میں گایا جاتا تھا۔پیش خدمت ہے۔

گھر گھر میں انجیل سنائیں گے
پیارے یسوع کا نام بتائیں گے

ایسا چھیڑیں گے مل کر ترانہ
جاگ اٹھے گا سارا زمانہ
بھولے بھٹکوں کو راہ پر لائیں گے

دل بیدار لے کر اٹھے ہیں
روح کی تلوار لے کر اٹھے ہیں
موزی شیطان کو مار بھگائیں گے

جھنڈے گاڑیں گے یسوع کے نام کے
ہوں گے مرکز مقدس کلام کے
اس کا پیغام سب کو سنائیں گے

ہر مرض کی دوا ہم بنیں گے
کلوری کی ضیا ہم بنیں گے
دکھی انسان کو غم سے چھڑائیں گے
یہ گیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔تاریکی میں چراغ ہے۔دوا میں دعا ہے۔غم میں خوشی ہے۔ روح کی تلوار ہے۔ بھولے بھٹکوں کے لیے پیغام ہے۔یقینا یہ گیت کلیسائے پاکستان میں بیداری کی لہر پیدا کر سکتا ہے۔اگرچہ آج آسائشوں اور ہماری منافق رویوں نے ہماری روحانی اقدار کو اقتدار کے نشے میں تبدیل کر دیا ہے۔روحانی بیداری میں ایک باپ ، ایک ما ں، ایک مبشر ، ایک چرواہا ، ایک چوپان ، ایک استاد خدا پرست نسل کی آبیاری کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید