Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
بچوں کی اخلاقی تربیت - فاختہ

بچوں کی اخلاقی تربیت

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 43 پسند: 0

بچے معاشرے کا حسن اور والدین کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔انھیں جسمانی روحانی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔بچپن میں ان کی فطرت نرم شگوفے کی طرح ہوتی ہے۔ضروری ہے انھیں اسی عمر میں نفسیات کی شاخوں کو پھل دار درخت میں تبدیل کر دیا جائے۔کیونکہ جب کسی درخت کا تنا مضبوط ہو جاتا ہے تو اسے کاٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔بچپن بچوں کی تربیت کا بہترین موسم ہے۔ اس موسم سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ان کے قلب و ذہن کو اسی زاویے پر موڑ دیا جائے تاکہ یہ بڑھاپے تک اس راہ پر چلتے رہیں جس پر انہیں چلنا ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں کہ روز اول سے بچوں کی تعلیم و تربیت کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ مذہب سختی سے تعلیم و تربیت کا درس دیتے ہیں۔ کسی کا خواہ کوئی بھی مذہب ہو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں بچے آپ کو سکولوں ، کھیل کے میںدانوں اور اپنے والدین کے ساتھ ہر جگہ گھومتے پھرتے نظر آئیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ عالم گیر ہے۔ ہر قوم اور معاشرہ پریشان ہے۔ کچھ بچے جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ کچھ نفسیاتی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔کچھ روحانی اقدار سے خالی ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی زبوں حالی ہے جو ہمیں سدھار کی دعوت فکر دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی روح کو سمجھنے کے لیے تربیت بنیادی عنصر ہے جس سے کوئی بھی معاشرہ روپوش نہیں ہو سکتا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے جو بچے کو خاندانی اور معاشرتی آداب سکھاتی ہے۔ بلا شبہ آداب وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں انھیں ہر بات کے متعلق بتانا چاہیے تاکہ روس ہمارا زندگی میں کوتاہی اور غلطی کا امکان برائے نام ہو۔ اسی حقیقت کے بل بوتے ہم نے اپنے بچوں کی پہچان اور کردار کو معاشرے کے سامنے پیش کرنا ہے، تاکہ ہمیں آئینے میں دھندلا دکھائی نہ دے۔

بچوں کی تربیت میں والدین بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اساتذہ پر ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ بچوں کو مستقبل قریب میں آداب کی گردان ازبر کروائیں۔کیونکہ ہر محکمے کے اپنے ادب و احترام ہیں۔ جگہوں کے اپنے اپنے آداب ہیں۔وہ جب تک ان آداب پر عمل پیرا نہیں ہوں گےاس وقت تک تبدیلی کی لہر نہیں آ سکتی۔
کیونکہ انھی بچوں نے اپنے خاندان اور ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کے بغیر سب کچھ ادھورا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں جتنی زیادہ توجہ تعلیم و تربیت پر آج دی جا رہی ہے شاید اتنی کسی دوسرے کام پر نہیں دی جا رہی۔ اس سلسلے میں یہ ہمارا مذہبی ، معاشرتی ، ثقافتی اور روحانی فرض ہے کہ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے سب لوگ اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔یقینا جب سب لوگ مل کر عملی سرگرمیوں کو فروغ دیں گے تو ایک پرامن معاشرہ وجود میں آئے گا بلکہ بگڑی ہوئی نسل کو سنوارنے کا موقع بھی میسر آئے گا۔ گزشتہ بیس سالوں سے بچوں کی تربیت کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے۔اس کے ہر سو مضر اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ یقینا ہم سب زندہ گواہ ہیں کیونکہ جن آنکھوں نے کوئی ماجرہ دیکھا ہو ، کانوں نے کچھ غلط سنا ہو ، دل نے ان باتوں کا بوجھ لیا ہو تو اس سے بہتر کوئی تجزیہ کار نہیں ہو سکتا ۔

اگر ہم عصر حاضر کا سرسری مطالعہ کریں ، حالات کا مشاہدہ کریں تو حالات و واقعات کھلی کچہری کی تصویر دکھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بچوں کی فطرت میں طرح طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ وہ چڑچڑے اور بد اخلاق ہوں گے۔ بڑوں کے ساتھ بد مزگی سے پیش آئیں گے۔ادب و احترام سے خالی ہوں گے۔ شیخی باز ہوں گے۔ طبعی محبت سے خالی اور سنگ دل ہوں گے۔ جھگڑالو ہوں گے۔ بلا وجہ تہمت لگانے والے۔ گالیاں بکنے والے ، جھوٹ اور مکاری کی روح رکھنے والے۔ ہر وقت دوسروں پر نقطہ چینی کرنے والے ، بے شرمی کی حدیں پار کرنے والے ، ٹھٹا بازی کرنے والے ، بری محفل کا انتخاب کرنے والے ، منشیات کی عادی۔یقینا اتنی بڑی فہرست پڑھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ معاشرہ بے راہ روی کی دلدل میں ہے۔ اس میں اونٹ کٹارے اگے ہوئے ہیں۔ ہر سو دہشتیں اور وحشتیں ہیں۔

بگڑے سماج کو سدھارنے اور بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے کسی بڑے فیصلے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے وقت پر کوئی بڑا فیصلہ نہ کیا تو حالات ابتر سے ابتر ہوتے جائیں گے۔ یہ شرح روز بروز بڑھتی جائے گی۔ سب سے پہلے والدین پریشان، پھر گلی محلہ اور پھر معاشرہ۔ ان کی نفسیات کو نکیل ڈالنے کے لیے اخلاق کی رسی جتنی زیادہ مضبوط کی جائے کم ہے۔
ضروری ہے ان کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔ انھیں سب سے پہلے سوشل میڈیا کے استعمال سے روکا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت ان ایپلیکیشن پر پابندی عائد کر دے تاکہ یہ سلسلہ ہنگامی بنیادوں پر بند ہو سکے۔ترجیحی بنیادوں پر انھیں آگاہ کیا جائے کہ یہ سب کچھ وقت کا ضیاع ہے۔ کیونکہ وقت تو آتا اور چلا جاتا ہے۔پھر لوٹ کر واپس نہیں آتا۔انسان گزرے لمحوں کو قید نہیں کر سکتا۔ لیکن موجودہ وقت میں کوئی اچھا فیصلہ کر کے مزید بربادی سے بچا جا سکتا ہے۔

بچے ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ہم سب کا فرض ہے۔ انھیں راہ راست پر لانے کے لیے اخلاقی درسگاہ کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ یہ معاشرے کے کارآمد اور پر امن رکن بن سکیں۔
وقت ، حالات اور واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے کوشش کی جا سکتی ہے۔ چراغ جلا کر گم شدہ سکوں کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ان کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔ اچھے اور برے میں فرق بتایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ خوابوں کی تعبیر کے لیے محنت کا ہل چلانا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔ورنہ پھر وہی تاریکی اور مایوسی کے حالات میسر ہوں گے۔ ہمیں حالات پر قابو پانے کے لیے اپنی اپنی جگہ کردار ادا کرنا ہوگا۔کسی پر الزام عائد کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اس الزام کا قرض ادا کر دیں جو ہم پر کسی بھی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ فیصلہ آج ہی کیجئے ۔دیر مت کیجئے کیونکہ کبھی کبھی ایک لمحے کی تاخیر کوسوں میل دور جا پھینکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید