Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
کلوری کی داستان - فاختہ

کلوری کی داستان

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مطالعات: 72 پسند: 0

کلوری کی داستان
...
عزیز جان من دوستوں، بھائیوں ، بزرگوں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں خداوند کا فضل ، اطمینان اور تسلی جو سمجھ سے باہر ہے۔ ہمیشہ آپ سب ایمانداروں کے ساتھ وابستہ رہے۔میں خدائے بزرگ و برتر کا دل و جان سے ممنون ہوں جس نے مجھے اور آپ کو آج دن تک زندوں کی زمین پر قائم رکھا۔ آج کا دن اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دن ہمارے منجی دو عالم یسوع مسیح نے صلیبی موت کو گوارا کیا۔اس ضمن میں میں آپ سب لوگوں کے سامنے داستان کلوری کی حقیقت بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔امید ہے اس سفر کے کٹھن لمحات ہمارے روح و قلب پر اپنی تاثیر کا گہرے نقوش چھوڑیں گے۔اس داستان کا پس منظر کچھ یوں ہے۔
میں اپنے ہاتھوں میں ایک کتاب تھامتا ہوں۔اس کا نام کتاب مقدس ہے۔وہ دو عہدوں پر مشتمل ہے۔پہلے عہد کو عہد عتیق جبکہ دوسرے عہد کو عہد جدید کہا جاتا ہے۔میں نئے عہد نامہ کی ورق گردانی کرتا ہوں۔میرے سامنے بہت سے واقعات ، نشانات ، معجزات اور صلیبی سفر کی داستان حال دل سنانے کو تیار ہے۔ میں اس داستان کو یسوع مسیح کی شان اور عقیدت کو گتسمنی باغ سے شروع کروں گا۔گتسمنی باغ کا لفظی مطلب کولہو ہے۔یہ جگہ یروشلم سے قدرون کے پار زیتون کے پہاڑ پر واقع ہے۔زیتون کے قدیم درختوں کا پہاڑ آج بھی وہاں قائم ہے۔یسوع مسیح اکثر و بیشتر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتسمنی باغ میں جایا کرتے تھے۔
(یوحنا کی انجیل 18: 2)
یہ گتسمنی باغ کا سب سے مشہور واقع ہے۔جب وہ ایک رات پہلے وہاں دعا کے لیے گئے تھے۔جب شام ہوئی تو خداوند یسوع اور اس کے شاگرد عید فسح منانے کے بعد گتسمنی باغ میں گئے۔ یسوع وہاں گیارہ شاگردوں کے ساتھ گئے۔ لیکن تین شاگردوں کو دعا کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔ان میں شمعون پطرس ، زبدی کے دونوں بیٹے یعقوب اور یوحنا بھی شامل تھے۔جہاں یسوع مسیح نے انہیں تاکید کی کہ جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ تم آزمائش میں نہ پڑو۔
مگر افسوس ! شاگرد اسی رات آزمائش کا شکار ہو گئے۔
وہ سو گئے تھے۔ان پر گہری نیند کا غلبہ طاری ہو گیا تھا۔اسی طرح پطرس نے خداوند یسوع مسیح کا تین بار انکار کیا تھا۔جب مرغ نے بانگ دی تو اسے یاد آیا کہ میں نے مسیح کا تین بار انکار کیا ہے۔وہ زار زار رویا۔اسے اپنے وعدہ پر پشیمانی ہوئی۔
خداوند یسو ع نے جب گتسمنی باغ میں دعا کی تو باپ سے درخواست کی اور کہا۔
اے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ وہ جان کنی کی حالت میں رہا۔ اس کا پسینہ خون کی بوندیں بن بن کر ٹپک رہا تھا۔ ڈاکٹر ولیم بیان کرتے ہیں۔عموما ایسی کیفیت اس وقت طاری ہوتی ہے۔جب کسی نے حد سے زیادہ غم لیا ہو تو خون کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں۔اس وقت پسینے کے ساتھ خون نکلتا ہے۔کیونکہ یسوع مسیح نے ساری دنیا کے گناہوں کا بوجھ اپنے قلب و ذہن پر لے لیا تھا۔اس سمر کے باوجود بھی یسوع نے کہا میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔وہ زندگی کے آخری سانس تک باپ کے تابع رہا۔یسوع اس موقع پر رویا۔
یسوع اپنی حیات مبارکہ میں تین بار رویا۔
۱۔ وہ لعزر کی قبر پر رویا۔
۲۔ وہ یروشلم پر رویا۔
۳۔ وہ گتسمنی باغ میں رویا۔
اس دعا کی فورا بعد یہوداہ اسکریوتی قوم کے سپاہیوں ، سردار کاہنوں ، فقیوں ، فریسیوں اور نوکروں کی ایک بھیڑ کے ساتھ یسوع کو گرفتار کرنے کے لیے آ موجود ہوا۔ اس نے یسوع کا بوسہ لے کر اسے پکڑنے کا اشارہ کیا۔ عزیزو کہتے ہیں نا کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا۔ بعض اوقات منہ میں رام رام اور بغل میں چھری ہوتی ہے۔اسی دھوکے میں یہوداہ اسکریوتی بھی مبتلا ہوا۔اس نے یسوع کا شاگرد ہونے کے باوجود اسے 30 سکوں کے عوض بیچ ڈالا۔ محبت کی قدر نہ کی۔شاگردی کا احساس نہ کیا ، بلکہ لالچ کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔آج بھی لوگ لالچ اور ہوس میں ایمانداروں کا خون بہاتے ہیں۔ ظلم و ستم کی داستنیں رقم کرتے ہیں۔ بے وفائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن پطرس نے شاگردیت کی قیمت چکاتے ہوئے ہمت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔اس نے ملخص نامی نوکر کا تلوار سے کان اڑا دیا۔یسوع نے پطرس کو ڈانٹا اور کہا اے پطرس اپنی تلوار میان میں رکھ ۔اگر میں باپ سے درخواست کروں تو وہ فرشتوں کے 12 تمن بھجج سکتا ہے۔چنانچہ وہ اسے گرفتار کر کے پنطس پیلاطس کے پاس لے آئے۔لیکن باقی شاگرد خوف کے مارے بھاگ گئے۔پیلاطس 25ء سے 35 تک یہودیہ کا حاکم رہا۔تبریاس قیصر نے اسے پانچواں حاکم مقرر کیا تھا۔اس کے پاس پانچ ہزار سے زائد فوج تھی۔جو قیصر کی چھونی میں تعینات تھی۔اس کا اختیار بڑا وسیع تھا۔وہ زندگی اور موت کا فیصلہ صادر کر سکتا تھا۔سردار کاہن کا تقرر اور ہیکل کا نظم و نسق بھی اس کے پاس تھا۔
یہودی مورخ یوسیفس اور یہودی فلسفی فیلو اس کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہ بڑا ظالم ، سنگ دل ، ضدی ، گھمنڈی اور انا پرست تھا۔ان دنوں میں یونانی اور لاطینی زبان بولی جاتی تھی۔ اس کی عدالت میں یسوع مسیح کو بطور مجرم لایا گیا۔ اس پر الزامات کی بارش برسائی گئی۔وہ حاکم وقت کو کہنے لگے کہ یہ تو قیصر کو خراج دینے سے منع کرتا ہے۔یہ اپنے صپ کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے۔یہ خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ یہ سبت کے دن لوگوں کو شفا دیتا ہے۔یہ معجزات دکھاتا ہے۔
پیلاطس نے یسوع کو بلا کر پوچھا کیا تو واقع یہودیوں کا بادشاہ ہے۔یسوع نے اس سے کہا تو نے خود کہہ دیا ہے۔ وہ یسوع سے مخاطب ہو کر کہنے لگا میں یہودی ہوں۔تیری ہی قوم نے تجھے میرے حوالہ کیا ہے۔یسوع نے جوابا کہا میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں۔اگر ہوتی تو میرے خادم لڑتے۔
اس نے یسوع سے دوبارہ پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے کہا تو خود کہتا ہے۔ اس بات پر بادشاہ خاموش ہو گیا۔لوگ زور زور سے چلا کر کہنے لگے۔اسے صلیب دو۔ اسے صلیب دو۔ لیکن اس نے ایک ترکیب کہ عید فسح کے موقع پر اسے چھوڑ دوں۔کیونکہ رومی حکومت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ عید فسح کے موقع پر کسی مجرم کو چھوڑ دیتے تھے۔ اس نے یسوع کو چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔لیکن یہودیوں نے براباڈاکو کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ وہ باغی اور قاتل تھا۔
عزیز یسوع مسیح کو ہماری خاطر کوڑے لگوائے گئے۔مارا پیٹا گیا۔اس کے منہ پر تھوکا گیا۔اس کے سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ اسے ٹھٹوں میں اڑایا گیا۔
عزیزو جب بھی کوہ کلوری کی داستان میری آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ میری آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔میں غمگین ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ اس نے صلیب پر میری نجات کا بندوبست کیا ہے۔
پولس رسول صلیب کی حقیقت یوں آشکارا کرتا ہے۔
* کیونکہ صلیب کا پیغام تو ہلاک ہونے والوں کے نزدیک بے وقوفی ہے مگر ہم نجات پانے والوں کے نزدیک خدا کی قدرت ہے۔
...
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید