Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
مجسم ہو گی الفت زمین پہ - فاختہ

مجسم ہو گی الفت زمین پہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 68 پسند: 0

مجسم ہو گی الفت زمین پہ

جشن ولادت المسیح کے موقع پر قارئین کے لیے روح پرور تحریر اس غرض و غایت کے ساتھ لکھی جارہی ہے تاکہ ہم رحانی ماحول کو فروغ دے سکیں _

عالم بالا پرخدا کی تمجید ہو اور زمین پر ان آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح_ (لوقا کی انجیل 2: 14 )
بلا شبہ کرسمس اقدار و روایات کی روشنی میں ہر سال 25 دسمبر کو بڑی دھوم دھام ،آشاوں، وفاؤں ،چاہتوں، مسکراہٹوں اور محبتوں کے ساتھ منایا جاتا ہے _یہ دن باطنی اور روحانی احساسات کا وہ حسین گوشہ ہے جس کے ہر کونے اور زاویے سے قو س قزح کے رنگ پھو ٹتے ہیں

ان شگفتہ رنگوں اور کرنوں کی بدولت کائنات کی وسعتوں میں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر اضافہ ہوتا ہے وہ جمالیاتی حسن و شباب سے مزین ہوتا ہے اور اس سے خارج ہونے والی شعاعیں یادوں کا نور بن کر برستی ہیں _

یوم یہ دن اپنی شہرہ آفاق صداقتوں کے باعث آسمان و زمین کی رونق میں کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے _ہماری روزمرہ زندگی میں خواہ کوئی بھی دن ہو وہ اپنی تاریخ دہرائے بغیر غروب نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے جس میں اچھی اور بری یادیں حالات و واقعات کی تاریخ ضرور مرتب کرتی ہیں _تاکہ ہم ہوش کے ناخن لے کر اپنی زندگی کے دن گن سکیں _دنیا میں یہ سات دنوں کا کماحقہ سا چکر ہے جو اپنی گردش دنوں مہینوں سالوں اور صدیوں میں تبدیل کرتا ہے _

وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلتا کہ سال کتنی جلدی اپنا سفر طے کر کے نئے سال کی نوید سنا دیتا ہے ہمیں سال بھر کی بہت سی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان حالات و واقعات کی نشاندہی کرنی چاہیے جو ہمیں قدر و منزلت کی طرف بڑھنے کی قوت دیتے ہیں یہ بات روز روشن کی طرح ہم پر اپنی صداقت کا بھیدظاہر کرتی ہے _کے وقت اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ ہماری سوچیں ارادے خیالات منصوبے اور اعمال اس کے حسن نزاکت یا احساس کمتری کی فضا پیدا کرتے ہیں _دراصل ہماری انفرادی اور اجتماعی کوششیں ذہن کی کوکھ سے جنم لے کر دن کے اجالوں اور رات کی تاریکیوں میں اپنی کروٹ بدلتی ہیں _

اگر اس بات کو فطری تجسس کے آئینے میں دیکھا جائے تو مقدس دنوں کی تاریخ اور پرچار سونے چاندی کے حصول سے قیمتی نظر آتا ہے جو تاریخ کے جھروکوں میں ہوا کے دوش پر صدیوں کی زینت بنتا ہے _اور اس وقت تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھتا ہے جب تک دھرتی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے یو ں کرسمس تاریخ کے آئینے میں آسمان و زمین کی تاریخ میں ایک ایسا خوشنما واقع ہے بلکہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کی خوشبو اور روشنی رہتی دنیا تک فضا کو معطر اور دنیا کو منور رکھے گی _

اگر ہم اپنے اپنے فن و شخصیت کے خول اتار کر دیکھیں تو ہمارے ذہنوں میں منفی سوچوں کی گرد ،گناہ کا قرض ،ادھورا میل ملاپ ،رنجشیں ،ناچاقیاں ،قباحتیں ،اور لڑائی جھگڑوں کا کھدو نظر آئے گا جسے کھولنے سے ہماری شخصیت تار تار نظر آئے گی _گلے شکووں کا ایک بڑا ہجوم جو بدنظری اور بدامنی کی فضا پھیلا کر انسانیت آدمیت اور بشریت کے درمیان دراڑیں ڈال دیتا ہے _آپ اس بات کا اقرار کریں یا انکار کریں البتہ ہمارا ضمیر ہمیں ضرور کوستا ہے _کیونکہ انسان کے اندر اتنی ہی پرانی انسانیت کے تصور موجود ہیں جسےآج اس نے نقلی روحانیت کے لباس میں اپنے آپ کو اوڑھ رکھا ہے جس کا اظہار ہمارے جسم و روح کے کاموں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے _کیونکہ ہم ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ ہیں _میں یہاں اپنا ایک اختصاریہ روحانی امور کے لئے قلم بند کرتا ہوں
(یہ روحانیت کا کیسا معیار ہے کے ہمارے روپ چرواہے کے اور جذبات بھیڑیے جیسے ہیں )

یہ بات سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے کہ ہم ابھی تک گناہ کے قرض سے پاک ہوئے ہے یا نہیں _کیونکہ گناہ ایک ایسا ناسور ہے جس کے اثرات و فتور ہمارے خون کے سیلز پر اثر انداز ہوتے ہیں _جو ہمارے درمیان رنجشوں ، کدورتوں ،نجاستوں ،برائیوں، نفرتوں اور وباؤں کو پیدا کرتا ہے _
شاید یہی وجہ ہے ہماری قدریں اور خوشیاں اداس لمحوں میں ڈھل چکی ہیں اور ہمارے دل کی دھرتی میں ابھی تک وہ محبت کا بھیج اگا نہیں جو دراز قد ہوکر پھل دے سکے اگر وہ اگتاتو اس کی جڑیں پھیل کر محبت کے نمکیات دیتی جس کی خوشبو اور ہریالی دوسروں کو نظر آتی ،ہماری آنکھوں میں نفرت کی جگہ محبت کی شمع ہوتی ہے ،کان ایک دوسرے کی عیب جوئی سننےکی بجا ئے وفا کے نغمے سنتے ،زبان جھوٹ کا کڑوا ذائقہ چھوڑ کر سچ کی رال ٹپکاتی ،دل حسد اور برے خیالات کی دھونی جلانے کی بجائے زندگی کی آکسیجن مہیا کرتا _اور ضمیر ان باتوں پر سوچ بچار کرتا جہاں سوچ کے مثبت زاویے بنتے ہیں _

کاش !ہم حقائق کا تبادلہ خیال اپنی زندگی کے گوشوارے بناکر کرتے اور اپنے ان کاموں کو ترجیحات کے موسم میں داخل کرتے جس کا حکم و نصیحت کتاب مقدس کے اوراق میں قلم بند ہے _شاید وقت کے بدلتے اتار چڑھاؤ نے ہماری سوچوں اور خیالوں کو پانی کے بپتسمہ سے غسل نہیں دیا اور وہ دل و دماغ کی گندگی جو ہمیں دوسروں پر پھیکنے کا حکم صادر کرتی ہے اس سے ابھی تک خلاصی نہیں پائی


آج ضمیر کو جگانے کی ضرورت ہے اور تجسم المسیح ہمیں اس بات کی دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم یسوع کی ان باتوں کو
جو اس نے ہماری زندگی بدلنے کے لیے کہی تھیں _انہیں آج آنکھوں اور دل کی چربی اتار کر دیکھنے کی ضرورت ہے،تاکہ ہم اس کے حقیقی بیٹے اور بیٹیاں بن کر اس کا جلال ظاہر کر سکیں _
کیونکہ ہمارا ایک لمحے کا فیصلہ اس فاصلے کو بانہوں میں سمیٹ سکتا ہے جسے ابلیس نے ہمیں جکڑ کر ایک دوسرے سے دربدر کر رکھا ہے _اس سلسلے میں ہمیں نفرتوں اور دوریوں کے جال کاٹنے کے لئے اس الٰہی محبت اور طاقت کی ضرورت ہے جو ہم سب کو مسیح کی محبت سے سرشار اور آزاد بھی کرے _

اگرچہ یہ دن اپنے کرشمات و واقعات میں وہ اتم درجہ رکھتا ہے جب آسمان و زمین پر ایسے کام اور معجزات ظہور پذیر ہوئے جس نے اس دن کی تاریخ امر کردی اور جب تک یہ دنیا قائم رہے گی اس وقت تک یہ دن اپنی تاریخ دہراتا رہے گا _کیونکہ یہ دن ہمیں یادوں کے خوبصورت شگوفے ، محبت اور خوشیوں کی وہ سوغات عطا کر گیا جس کی یاد دل سے کبھی جدا نہیں ہو سکتی _ خواہ موسموں کی شدت ہو ،حالات و واقعات کی زخم کاری ہو ،وباوں بیماریوں اور آزمائشوں کے گچھے ہوں _کیا یہ دنیا کی علتیں ،وبائیں، آزمائشیں ،جدائیاں ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کریں گی ؟آؤ سب مل کر اپنی اپنی زندگی سے ایک ایسا چشمہ جاری کریں جو ان تمام کثافتوں کو بہا کر کسی ایسی جگہ لے جائے جہاں یہ زمین بوس ہو جائیں _تاکہ یہ دوبارہ لوٹ کر ہمارے دل و دماغ کو گندا اور آلودہ نہ کرے _ایک گوشتین دل کی یہی خوبی اور حسن وفا ہوتی ہے کہ وہ اپنے دل کی حفاظت کرے _

آئیے اپنی ذات کے بند خول اور انا کے بند پنجرے سے باہر آکر محبت کا دیپ جلا کر کرسمس کی خوشیاں دوبالا کریں اپنے دلوں اور ذہنوں سے ان گندے خیالات کو روح القدس کی معموری سے غسل دیں تاکہ ہماری ناچاقیاں کلام کی قدرت سے پاک ہو جائیں _تبدیلی کی شروعات خود سے کیجئے تاکہ نمونہ اور عمل اس بات کا گواہ بن جائے کہ تبدیلی کا مرکز میری ذات ہے _میں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے گناہ اور آنکھ کے شہتیر کو دیکھو _
یہ پندونصاح کا خوبصورت عمل ہے جو غیر ہموار راستوں کو ہموار بنانے کی صلاحیت اور اپنائیت رکھتا ہے _

آیئں خداوند یسوع مسیح کی پیدائش کے اغراض و مقاصد سامنے رکھتے ہوئے امن محبت اور صلح کا دیا جلائیں جو آسمان و زمین کے ان واقعات کو پھر سے توانا کریں جو تاریخ میں رقم ہیں _بلاشبہ امن محبت اور صلح تین زاویوں والی مثلث ہے جسے ہم محبت کی گردان کی مثلث سے تشبیہ دے سکتے ہیں ،یعنی ایمان امید اور محبت _یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل ان میں محبت ہے _
جاوید ڈینی ایل بھی اسی "محبت"(خدا محبت ہے) کے مجسم ہونے کی گواہی اپنے اس شعر میں یوں دے رہے ہیں:

بشارت جب ہوئی عرش بریں پہ
مجسم ہو گی الفت زمین پہ

محبت کا یہ کلمہ خود عرش بریں سے زمین کی رونق بحال کرنے کے لیے انسان بن کر آیا تو پھر کیوں ہم اصولوں کے ابلیس بنے بیٹھے ہیں اور اپنی انا کے بند پنجرے سے باہر نہیں آتے _آئیں اس سے قبل بہت دیر ہو جائے اپنی زندگی خداوند یسوع مسیح کو دیں اور اسے اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کریں _
تحریر :
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ کینٹ
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید