Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
تخیلات و جذبات کا آنگن - فاختہ

تخیلات و جذبات کا آنگن

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 40 پسند: 0

تخیلات و جذبات کا آنگن

کائنات خدا کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔اس نے جس قرینے اور محبت سے اسے تخلیق کیا ہے۔اس کی خوبصورتی روز اول سے روز آخر تک قائم و دائم رہے گی۔ جگہ جگہ اس کے کرشمے اور معجزات کی تجلی ہے۔ان تمام چیزوں میں فکر و آگاہی کا پیغام موجود ہے۔انسان بھی اس کی شبیہ پر بنایا گیا ہے۔اس لیے وہ تمام مخلوقات سے افضل ہے۔ قدرت نے اسے محسوسات ، تخیلات ، جذبات ، تجربات اور مشاہدات کی حس عطا کی ہے۔ وہ انہیں فرض سمجھ کر بروئے کار لاتا ہے۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیتا ہے۔ قلم دوات کا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ اس نے آج تک اس رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ بلکہ اپنی گوناں گوں مصروفیت کے باوجود بھی نبھانے میں سرگرم ہے۔ اظہار کے لیے لفظوں کی ضرورت پڑتی ہے اور جب تک لفظوں کا ذخیرہ موجود نہ ہو اس وقت تک تخلیق کا عمل ادھورا ہوتا ہے۔ اس اچھوتے عمل کو فروغ دینے کے لیے ہر دور کے علماء ، ادباء، شعراء، مورخین ، مصنفین اور دانشوروں نے اپنے اپنے حصے کی شمع جلائی ہے۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجئے کہ قلم قبیلہ کس قدر متحرک اور دلچسپی سے کام کرتا تھا۔ان کی محنت شاقہ کا ثمر دنیا کی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔ کہتے ہیں لکھاری کبھی نہیں مرتا کیونکہ اس کا کام اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔ اسے جب بھی پڑھا جاتا ہے۔اس کے فن و شخصیت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا حق بجانب ہے کہ تخلیق کار قدرت کا عظیم شہکار ہے۔ اسے خدا نے دنیا سے منفرد بنایا ہے۔ وہ سوچ بچار کا دیا جلا کر بھیڑ سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کے منطقی خیالات ہرے بھرے درخت کی مانند رہتے ہیں۔جو دوسروں کو مثبت سوچ کی غذا مہیا کرتے ہیں ۔ جیت ہمیشہ مثبت خیال کی ہی ہوتی ہے اور جب خیالات کو اصناف سخن میں مرتب کرنا مقصود ہو تو وہ مضمون ، افسانے ، ناول ، شاعری ، انشاء پردازی ، کالم نگاری یا حکیمانہ بصیرت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
یقینا اس پیش رفت میں تخیلات و جذبات کا آنگن اسے سحر انگیز بنا دیتا ہے۔ اگرچہ شعر و نثر علم و ادب کی الگ الگ شاخیں ہیں۔ انسان کی فطرت میں جو شاخ بھی بارور ہو جائے وہ تنا آور درخت بن جاتی ہے۔ خدا کی قدرت ہر جگہ موجود ہے۔ وہ ہم کلامی کے راز سے لبریز ہے۔ آب جب چاہیں فرصت کے اوقات میں محسوسات کی ہوا محسوس کر سکتے ہیں۔ تاریکی میں دیا روشن کر سکتے ہیں۔ دلکش وادیوں کا منظر سینچ سکتے ہیں۔ سمندروں کا شور سن سکتے ہیں۔ پہاڑوں کے رنگ و راز بیان کر سکتے ہیں۔ قدرت کی رعنائیوں ، دیس کی مٹی ، ثقافتی اقدار اور تخیلات و جذبات کو سندر سپنوں اور منزہ جذبوں کے تحت الفاظ کی مالا میں پرو سکتے ہیں ۔
ایک منفرد اور باکمال وہ تخلیق کار ہوتا ہے۔جو اپنے اندر عالمگیر نظریات اور آفاقی صداقتوں کی ترجمانی کر کے اسے صحفہ قرطاس پر بکھیر دے۔ تاکہ اس کی آنے والی نسلیں اس بات کا فخر سے سانس لے سکیں کہ ہمارے اسلاف نے تخلیقی قوت کو کس جرات و ایمان کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اصناف سخن میں شاعری ایک خوبصورت باغیچہ ہے جس میں غزل ، نظم ، مرثیہ ، رباعی ، مثنوی ، نثری نظم یا آزاد نظم شامل ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ایک مشہور یوگی، فلسفی ، سیاسی اور مشہور شاعر سری
اربندو گزرا ہے جس کی آزاد نظم 24 ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اسی طرح عصر حاضر میں ثمینہ وفا اپنے تخیلات و جذبات کی بدولت شعر و سخن کی تابندہ روایت کو اپناتے ہوئے ان کی تخلیق کا سورج طلوع ہوا ہے۔ اس کی فن و شخصیت پر بات کرتے ہوئے گماں گزرتا ہے کہ وہ اپنے اندر موسموں کی تغیر پذیری ، اقدار و روایات کا بھرم ، محبت و خوشی کا حسین امتزاج رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے تصورات کی آبیاری کے لیے غزلوں نظموں اور قطعات کا سہارا لیا ہے۔ ان کے کلام میں ندرت ، تازگی ، دلکشی ، اپنائیت ، تغیر و تبدل ، فطرت کی رعائیاں ، مٹی کی خوشبو ، انسانی قدریں ، حسن و تمنا کی آدائیں بکثرت موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں انقلاب کی باتیں ، محبت کی روایات ، جذبوں کی صدا ، وفا کا کردار ، کائنات کا حسن و جمال ، سلگتے جذبات جیسے آثار و کیفیات موجود ہیں۔ جو ان کے اندر کی آواز اور محسوسات کا قرض ہے جو انہوں نے اتارنے کی کوشش کی ہے۔ بوجھ تو بوجھ ہوتا ہے۔اگر اسے اتارا نہ جائے تو وہ صفات کے ذخیرے کو زنگ آلود بنا دیتا ہے۔فاضل شاعرہ نے اس دھند اور غبار سے بچنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی ہے۔ یقینا کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ہمیشہ انہی لوگوں کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ جنہوں نے بڑے بڑے بول بولنے سے گریز کیا ہے۔ ثمینہ گل وفا بھی ان معتبر ادب شناسوں میں سے ایک ہے جس نے وفا کا چراغ جلا کر روشنی مہیا کی ہے۔نمونے کے طور پر ان کا شعر پیش خدمت ہے۔
وہ نام لیتا تھا میرا تو چاند ہنستا تھا
وفا کمال کی تاثیر زبان میں تھی
میری دلی دعا ہے ان کا شعری مجموعہ " وفا" شرف مقبولیت کی سیڑھی پر رکھا جانے والا پہلا قدم ثابت ہو۔ خدا ان کے قلب و ذہن کو علم و ادب کی خدمت کے لیے مزید زرخیز بنائے۔ اسی دعا اور ایمان کے ساتھ اجازت کہ ان کے تخیلات و جذبات کا آنگن اسی طرح منظر پیش کرتا رہے۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید