Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
یوسف رند شعر و سخن کا تابندہ ستارہ - فاختہ

یوسف رند شعر و سخن کا تابندہ ستارہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 90 پسند: 0

یوسف رند شعر و سخن کا تابندہ ستارہ

میرے لیے بڑے استحقاق کی بات ہے کہ مجھے فرزند فیصل آباد علم ادب سے والہانہ شغف رکھنے والی شخصیت جناب یوسف رند کی زیر طبع کتاب باعنوان" چپ گلیاں دا موسم"
پر بحیثیت مبصر ان کی شاعری پر فہم سخنی کی سعادت ملی۔شاعری قدرت کی ودیعت اور انسانی تجسس کا وہ بوجھ ہے جسے جب تک فنی محاسن کے تحت ادب کی لڑی میں پرو نا دیا جائے اس وقت تک وہ چین کی نیند نہیں سو سکتا۔ اس دنیا میں ہر کوئی اپنی اپنی طبع کے موافق خواہشات کا جال بچھاتا جاتا ہے۔ ان کی تکمیل کے لیے لاکھ جتن اور تگ و دو کرتا ہے۔ اپنے محسوسات اور جذبات کو قلم فرسائی کے ذریعے عوام الناس تک منتقل کرتا ہے۔اس کے علاوہ معاشرے میں پھیلی ہوئی قباحتوں ، بدعتوں اور ظلم و ستم پر خاموشی کا سکوت توڑ ڈالتا ہے۔ ایک قلم کار اپنی معاشرے میں پھیلی ہوئی زہر ناکیوں پر جتنا زیادہ شور مچائے گا۔
وہ اسی قدر خوباں ہوتا جائے گا۔اس کی زندگی میں عمل حب پرورش پاتا جائے گا۔ کیونکہ عاجزی و انکساری کی دولت رکھنے والا شخص مادی دولت کے حامل افراد سے زیادہ غنی ہوتا ہے۔ اس کے اندر کا انسان اوصاف کی دل بستگی کا دلدادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب انسان لطف و احسان کا قائل ہو جاتا ہے تو اس کی سوچ فلک تک رقص کرتی ہے۔
وہ ان باتوں ، واقعات ، یسیرتوں ، کرشمات اور نشانات کو بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کی بدولت زبان زد لا دیتا ہے جن پر لوگوں کی دور دور تک نظر نہیں جاتی۔شعر و سخن کے حوالے سے فیصل آباد کی زمین خاصی زرخیز ہے۔خوش پور کی زمین سے جنم لینے والا یہ نام اپنے نام کی معنویت اور عرفانیت میں پھل دار ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ یوسف رند اپنے کام اور فن کی وجہ سے شہرت کے گراف پر ضرور نظر آتا ہے۔ اٹلی میں مقیم ہوتے ہوئے بھی زبان و ادب سے محبت ایک غریب دل ہی کر سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک فکر و خیال کے جوہر آفاقی صداقتوں کی ترجمانی نہیں کرتے اس وقت تک دوسروں کے بند ذہنوں اور دلوں کو کھولا نہیں جا سکتا۔ فاضل دوست اپنی شاعری میں ایسی تاثیر اور گرفت رکھتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے مخصوص حلقہ ارباب سے نکل کر عالمگیر نظریات کے حامل بن جاتے ہیں۔
موصوف بنیادی طور پر اردو اور پنجابی کے منجھے ہوئے شاعر ہیں۔اس سے قبل ان کی کئی کتابیں علمی و ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔ لہو دی واشنا
٢۔ رتی شام دا سفر
٣۔ چپ آسماناں ورگی
چوتھی کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کا مشق سخن تواتر و تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ شعر و ادب سے معمور ہے۔ جگہ جگہ سبق آموز اخلاق و کردار کے دائرے ہیں۔
پنجابی غزلیں لکھنا ان کی ذہنی استعداد کا وہ کرشمہ ہے۔جہاں ان کا شاعرانہ وصف افق پر گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ادبی یار کو پڑھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ ان کی شاعری میں شعلہ نفسی کے وہ تجدیدی عناصر موجود ہیں۔ جو اندر ہی اندر دہکتے ہوئے انگارے کی طرح دوسروں کو حرارت غریزی مہیا کر دیتے ہیں۔ انہوں نے انسان کے اشرف المخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ زمانے کا ماہر نباض ہونے کا فرض بھی پورا کیا ہے۔جہاں معاشرتی نا ہمواریاں انسان کا تعاقب کرتی ہیں۔وہاں انہوں نے گھپ اندھیری رات اور تاریکی کی راہوں میں شاعری کا جو چراغ روشن کیا ہے۔اس حقیقت کے پس منظر میں اگر ان کو طائر نگاہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔
ان کے شعروں میں برچھیوں کی نوکیں بنی ہوئی ہیں۔ انہیں اگر پتھروں پر بھی مارا جائے تو ان کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ فاضل دوست کے کلام میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی بڑی جدت و ندرت کا حامل ہے۔
ان کی شاعری میں خاص رنگ ، طرز ادا اور انوکھا پن ہے کیونکہ ان کا ہر شعر تاثیر اور خیال کی دلکشی میں رچا ہوا ہے۔انہوں نے ضرورت کے وقت لفظی اور معنوی تصرفات سے بھی کام لیا ہے۔میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ وہ اپنے اسلوب بیان کے خود موجد ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک چراغاں جیسی کیفیت ہے۔اجتہادی شان و شوکت ہے۔ شعور کی گہرائی ہے۔ فکری داستان اور نظریہ کی پختگی اور اظہار ابلاغ کی بڑی بڑی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔
کیونکہ جب شاعری میں مخصوص زبان کی تخلیق کے محرکات بنتے ہیں تو ایک اجتہادی کارنامہ سرانجام پاتا ہے۔
اگر غزل کے رنگ تغزل پر غور و خوض کیا جائے تو رفتہ رفتہ اس میں وسعت و کشادگی پیدا ہوتی جاتی ہے اور زندگی کے دیگر موضوعات بھی دائرہ غزل میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ یوں ایک کولاج سا بن جاتا ہے۔
یوسف رند کی غزلیات پڑھتے ہوئے اس میں گوناں گوں جدتیں ، انسانیت کی لاج ، وفاؤں کی جھلک ، حسن پرستی لطافت و نظافت کا احساس بھرپور بکھرا پڑا ہے۔ان کی شاعری میں جو چیز انسان کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
وہ ان کا بے حد بڑا ہوا لطیف جزبہ و احساس ہے۔ جو قدم با قدم انسان کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے شدید احساس اور بلند تخیل کی بدولت نازک خیالی کی ایسی صورتیں پیدا کی ہیں جہاں قلب و ذہن کی زمین فورا زرخیز ہو جاتی ہے۔
جیسے دنیا میں ہر چیز کی خاص مہک اور ذائقہ ہوتا ہے۔اسی طرح موصوف کی شاعری کی بھی خاص مہک اور ذائقہ ہے۔اس اعتبار سے انہوں نے ایک نئی دنیا آباد کی ہے۔ایک نیا افق تلاش کیا ہے۔فن کی جو راہ انہوں نے نکالی ہے وہ خود اس کے راہی ہیں۔ کیونکہ ان کا انداز سخن اپنے اندر لطافت، ندرت اور جدت رکھتا ہے۔لگتا ہے انہوں نے اس دور کی تہذیب و معاشرت کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔دولت و زر کا موازنہ کیا ہے۔فنی باریکیوں کو خوب تر بیان کیا ہے۔ میں جیسے جیسے ان کی شاعری پڑھتا جاتا ہوں۔ میں ویسے ویسے ہی مختلف معاشروں کا مطالعہ ، دنیا کے رسم و رواج ، ثقافتی و لسانی فسادات ، رنگ کائنات اور انوکھے خیالات پر غور و خوض کرتا جاتا ہوں۔ حیرت ہے فاضل دوست نے دنیا کی الودگی ، دھند اور غبار میں جس تیرگی اور عمدگی سے دسترخوان بچھایا ہے۔ وہ سب کو دعوت فکر اور اتحاد و یگانگت کی صف میں کھڑے ہونے کی تلقین کرتا ہے۔معلوم نہیں ان کی وجدانی کیفیت و آثار کن موسموں میں پروان چڑھے ہیں۔ وہ تخیلات کون سے پہروں میں اچھلتے کودتے رہے ہیں۔ لگتا ہے انہوں نے احساس کی بند گلی میں قید و بند کی صحبتیں برداشت کرتے ہوئے غزلوں کا ایک زرخیز کھیت تیار کیا ہے۔ امید ہے ان کی شاعری بلا تفریق مشرق و مغرب میں سند اعزاز کی حقدار ٹھہرے گی۔ بہت سے لکھنے اور پڑھنے والوں کو محبت اور فکر کی تمام تر جزئیات کی تفصیل فراہم کرے گی۔ یوسف رند دیس کی دھرتی کا سپوت ہوتے ہوئے عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ فراخ دل بیٹا بھی ہے جس نے پاکستان کا نام اٹلی کی سرزمین پر بھی روشن کیا ہے۔لہذا یہ کہنا واجب اور صحیح ہوگا کہ یوسف رند شعر و سخن کا ایک تابندہ ستارہ ہے جس کی شاعری پنجاب کے ہر صاحب سخن کو بلند پروازی اور جداگانہ اسلوب سے منور کرے گی۔قائرین کی خدمت میں ان کی ایک آفاقی غزل پیش خدمت ہے۔

اپنی حد توں اگے ساہواں نیئں ہونا
ہنجو پیڑ پراگے ہاواں نیئں ہونا

جس نگری نوں آپ اجاڑ کے سوں گئے آں
اس نگری وچ رستے راہواں نیئں ہونا

دیوے بال کے لہو نال جتھے رکھاں گا
ویکھ تاں اوتھے تیز ہواواں نیئں ہونا

جہیڑے پاسے سورج ڈب کے چڑھیا نیئں
اوس زمین تے دھپاں چھاواں نیئں ہونا

ایک ویلے تے چیک سنائی دیندی اے
اک ویلے فر صداواں نیئں ہونا

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید