Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
جرمِ آگہی - فاختہ

جرمِ آگہی

عارف پرویز نقیب نظمیں مطالعات: 72 پسند: 0

وہ مجھ سے خفا ہے کہ میرا جُرم ہے اتنا
میں اُس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
میں لکھتا نہیں حُسن کی تعریف کے پہلو
میں قرب کے پُر لُطف زمانے نہیں لکھتا
میں اُس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
۔۔۔
ہے اس کو گلہ حُسن کو دیوانہ نہیں کیوں؟
میں اس کے لئے خود سے بھی بیگانہ نہیں کیوں؟
ہونٹوں پہ نہیں گیت مرے اس کی وفا کے
میں اُس کو نہ ملنے کے بہانے نہیں لکھتا
میں اُس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
۔۔۔
لکھتا ہوں جواں موت پہ اک ماں کی بُکا میں
اک باپ کے ہونٹوں پہ ہے جو لرزاں دُعا میں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی میں لکھتا ہوں کہانی
میں اس کو مگر خواب سہانے نہیں لکھتا
میں اُس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
۔۔۔
لکھتا ہوں میں غربت میں پسے شخص کا قصہ
لکھتا ہوں میں دہقان کی مجبوریاں اس کو
مزدور کی محنت کا صلہ ملتا نہیں کیوں؟
لکھتا ہوں میں انسان کی مجبوریاں اس کو
میں عشق مجازی کے ترانے نہیں لکھتا
میں اُس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
۔۔۔
دیکھے ہی نہیں اُس نے یہ روتے ہوئے بچے
یہ بھوک سے بےتاب بلکتے ہوئے بچے
یہ سردی کی راتوں میں ٹھٹھرتے ہوئے بچے
یہ گرمی کی شدت سے پگھلتے ہوئے بچے
زد میں ہیں ہواؤں کی یہ ٹوٹے ہوئے پتے
کیوں وقت انہیں فکرِ سکونت نہیں دیتا
۔۔۔
ہر گام ہر اک راہ بھٹکتے ہوئے بچے
یہ وقت کی دہلیز سے اُترے ہوئے بچے
دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوئے بچے
دیکھے ہی نہیں اس نے یہ روتے ہوئے بچے
ڈھیروں پہ غلاظت کی یہ کیا ڈھونڈنے نکلے
۔۔۔
اشکوں کی طرح آنکھ سے گرتے ہوئے بچے
یہ بنگلوں کے پچھواڑے بھٹکتے ہوئے بچے
ماں باپ کی مجبوری میں جلتے ہوئے بچے
دیکھے ہی نہیں اُس نے یہ روتے ہوئے بچے
۔۔۔
میں جانتا ہوں اُس سے محبت ہے مجھے بھی
ہاں! اُس کی وفاؤں سے عقیدت ہے مجھے بھی
ہے اس کی کسک ٹیس مرے دل کی بھی لیکن
اک درد جہاں اذنِ عبادت ہے مجھے بھی
۔۔۔۔
لکھتا ہوں کہ فرصت نہیں مجبوری جاں ہے
اب تک ترا شاعر بھی تو محرومِ مکاں ہے
ملنے کے کبھی اس کو ٹھکانے نہیں لکھتا
میں اس کو محبت کے فسانے نہیں لکھتا
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید