Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
کہی اَن کہی۔۔۔ عارف پرویز نقیبؔ - فاختہ

کہی اَن کہی۔۔۔ عارف پرویز نقیبؔ

عارف پرویز نقیب صریرِ خامہ مطالعات: 64 پسند: 0

کہی اَن کہی۔۔۔ عارف پرویز نقیبؔ

نہیں معلوم کہ ہم شاعری کے شوق میں کب مُبتلا ہوئے جسے میرے والدِ محترم اور دیگر رشتہ داروں نے پاگل پن قرار دے دیا۔ اَور تو اَور، ہمارے مکتب کے ہیڈماسٹر صاحب نے ہمیں اپنے دفتر میں بُلا کر بے نقط سُنائیںا ور شاعری کے مضمرات اور خامیاں گنوائیں۔ ہم نے دبے دبے الفاظ اپنی درسی کتب میں شاعروں کا حوالہ دیا تو ہیڈ ماسٹر جو ریاضی کے اُستاد تھے، ہماری اچھی طرح ٹھکائی کرنے کے بعد ہمارے اُردُو کے اُستاد محترم البرٹ جوزفؔ صاحب جو فخریہ ہمیں ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے تھے، اُن کو میرا علاج کرنے کا مشورہ دیا۔ علاج سے مُراد وہی ٹھکائی تھی جو وہ کر چکے تھے۔
یہی نہیں بلکہ اگلے دِن ہمارے والدِ محترم کو بُلا کر اُن کے سامنے ہماری سرزنش اسی طور سے کی ۔ ابّا مرحوم اُن کے دلائل سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ اسکول کے بعد جب گھر پہنچے تو پہلا کام یہ ہوا کہ صحن کے عین درمیان مُرغا بنا دیاگیا۔ جس کا کچھ احوال ہم اپنے اولین مجموعۂ سُخن ’’حرفِ لامکاں‘‘ میں کر آئے ہیں۔ ہمارا مُرغا بننے کی دیر تھی کہ امّی نے ایسا ہاؤ ہو مچایا اور بہنوں نے جن کی ہمارے ساتھ کبھی نہ بنی تھی، رو رو کر آسمان سر پر اُٹھا لیا جس کے سبب ایسا ماتم گزیدہ ماحول بنا کہ آس پڑوس کے لوگ بھی بھاگے دوڑے چلے آئے کہ خُدا جانے کیا ہو گیا۔ اِس کا فائدہ یہ ہُوا کہ ابّا جان نے ایک لات ہماری جائے تشریف پر رسید کی اور ساتھ ہی شاعری کو ہمارے لئے شجرِ ممنوع قرار دیتے ہوئے خبر دار کیا کہ اگر اب شکایت آئی تو ہڈیاں توڑ دوں گا۔ اُس وقت ہم جماعت نہم کے طالب علم تھے۔ خیر اُن کے خبردار کرنے پر ہم نے فوراً شاعری نہ کرنے کا وعدہ کر لیا۔ مگر شاعری کی لت جو لگ گئی تھی۔ اور جو اُلٹے سیدھے اشعار سُنا کر دوستوں سے داد وصول کرنے کا چسکا تھا وہ ختم نہ ہُوا۔
خیر، دسویں جماعت تک ہم نے اشعار تو کہے مگر ابّا جان اور ہیڈ ماسٹر صاحب کو بھنک نہ لگنے دی۔ لیکن دسویں کے بعد اسکول سےفارغ ہونے سے پہلے اسکول اور جماعت نہم کی جانب سے دی جانے والی الوداعی تقریب منعقد ہوئی تو ہم نے ایک الوداعی نظم لکھ کر سُنا دی۔ دورانِ تقریب کسی اَور کا تو پتہ نہیں ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب مسلسل کروٹیں بدلتے رہی۔ جب کہ تقریب میں شامل شرکاء نے واہ واہ کے وہ ڈونگرے برسائے کہ ہم آنےو الے عتاب سے بیگانہ ہو چکے تھے۔ تقریب ختم ہوئی، گھر پہنچے تو بقول خاطر غزنوی کہ ،
؎’’مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے‘‘
ہمیں ہماری چھوٹی بہن جن سے ہماری دشمنی چلتی تھی، سب سے پہلے بھاگ کر دروازے پر پہنچیں کہ بھاگ جاؤ، ابّو بہت غصے میں ہیں۔ خیر، شام تک پتہ نہیں کس کس کے سمجھانے پر اُن کا غصہ سرد پڑا تو ہم جو پڑوسیوں کے گھر میں پناہ گزین تھے، بُلا لیا گیا۔ خیر، میٹرک کا نتیجہ آیا تو ہماری فرسٹ ڈویژن دیکھ کر ابّا جی نے بہت شاباش دی مگر شاعری سے اجتناب کا مشورہ بھی دیا جسے ہم نے فوراً قبول کر لیا۔ کرنا خُدا کا یہ ہُوا کہ ہمیں ایف سی کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ ہاسٹل کا انتظام بھی ہو گیا اور ہمارے پر پُرزے نکل پڑے۔ اور
؎ ’’بن کے پنچھی اُڑتی پھروں مست پون میں‘‘
کے مصداق ہمیں شاعری کرنے کا کھُلا میدان میسر آ گیا۔ دوسرا یہ ہوا کہ ہماری ریاضی سے جان چھُوٹ گئی جس کےلئے ہم اسکول کے دِنوں میں زیرِ عتاب رہے۔
اِنہی دِنوں میں گوجرانوالہ میں جناب کے آر ضیاؔ صاحب سے ملاقات ہوئی تو اُن کے پاؤں پکڑ لئے۔ ابھی ہم ابتدائی مراحل میں تھے کہ وہ لاہور منتقل ہو گئے جہاں اُن کی مصروفیات بڑھ گئیں اور ہمیں بہت کم وقت میسر آتا تھا۔ مگر ہم اِس قدر طاق ضرور ہو گئے کہ قافیہ ردیف سمجھ آ گیا اور کچھ شُدھ بُدھ وزن کی بھی ہوئی۔ خیر کالج کا دَور اختتام پذیر ہُوا تو بی اے آنرز اُردُو ادب کے لئے پنجاب یونیورسٹی جا پہنچے جہاں ایک نئی دُنیا ہماری منتظر تھی۔
شاعری کو تو جیسے پر لگ گئے۔ جو اُلٹا سیدھا سمجھ میں آتا لکھ ڈالتے اور دوستوں سے دُشنام طرازی اور داد بیک وقت وصول کرتے۔ وہیں ہماری ایک بہترین دوست اور بدترین دشمن زاہدہ باجوہؔ بھی تھیں جو ہماری شاعری پر کھُل کر داد دیتی اور عوضانہ میں ہمارے بنائے ہوئے نوٹس وصول کر کے کاپی کر لیتیں۔ بدترین دشمن یوں کہ ہم اُسے دیکھ کر اکثر غائب ہو جاتے اور جس کا علم اُسے اُس کے چھوڑے ہوئے گماشتوں کے باعث ہو جاتا اور تلاش کر لینے پر ایسی ایسی باتیں سُناتی کہ الاماں، تب خُدا سے شکوہ ضرور ہوتا کہ یا اِسے زبان نہ دی ہوتی یا ہمیں قوتِ سماعت سے نہ نوازا ہوتا۔ لیکن ہم اُس سے جان بھی نہ چھُڑا پاتے کیونکہ وہ بارہا ہماری شاعری کی نوک پلک سنوار دیتی تھی کیونکہ وہ شاعری کے اسرار و رموز ہم سے کہیں بہتر جانتی تھی۔
خُدا خُدا کر کے بی اے آنرز کے بعد اُس سے جان چھوٹنے کا جس قدر افسوس ہوا وہ بتانا مشکل ہے۔ ایم اے تاریخ میں داخلہ لیا تو زاہدہ باجوہؔ کے بتائے گئے اصولوں کے باعث ہماری شاعری پہلے سے کہیں بہتر ہو چکی تھی۔
بعد ازاں، کراچی منتقل ہوا تو ایک وسیع میدان ہمارے سامنے تھا جس میں ہم نے قدم رکھ دیا اور کئی جید شعرا سے شرفِ ملاقات رہی۔ اُنہیں میں جناب روشن علی عشرتؔ تھے جنہوں نے ہمیں کئی ایک اسرار و رموز سمجھائے مگر اُن سے بھی ملاقاتیں اِس سبب سے ادھوری رہ گئیں کہ ہم سعودی عرب چلے گئے۔
عہدِ حاضر میںہماری ملاقات مسیحی حلقوں میں سے سب سے معتبر اور یکتائے روزگار شخصیت اور علمِ عروض کے ماہر جناب ڈاکٹر عادل امینؔ سے ہوئی۔ جنہوں نے ہمارے پہلے مجموعۂ سُخن کی تدوین میں بڑی خوشدلی سے ہمارا ساتھ دیا۔ پہلے مجموعۂ کلام ’’حرفِ لامکاں‘‘ میں اُن کے لئے لکھا ایک مکمل اقتباس کاتب نے خُدا جانے کہاں گُم کیا کہ کتاب چھپ کر آئی تو وہ اقتباس موجود نہ تھا۔
اپنے دوسرے مجموعۂ سُخن ’’سقوطِ عشق سے پہلے‘‘ کی اشاعت کے لئے ’’فاختہ فاؤنڈیشن‘‘ اور اِس کے روحِ رواں جناب پادری اسٹیفن رضاؔ کا تہِ دِل سے ممنون ہوں جنہوں نے اِس کام میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔
اِس ضمن میں ’’فاختہ فاؤنڈیشن‘‘ سے متعلق بتانا ضروری ہے کہ یہ خیال کیوں کر آیا اور اِس کے پسِ پشت کیا مقاصد پنہاں تھے۔
آج سے کوئی چار ماہ پہلے ہمیں جناب پادری اسٹیفن رضاؔ نے خصوصی طور پر اپنے دولت کدہ پر مدعو کیا تو میں یہ سُن کر حیران رہ گیا کہ پادری صاحب ہمارے نام سے ہمارے کلام سے متعلق کوئی ویب سائٹ مرتب کرنے جا رہے ہیں۔ بات ہوتے ہوتے اِس نتیجہ پر پہنچی کہ فاختہ فاؤنڈیشن کی وساطت سے محض عارف پرویز نقیبؔ کا کلام ہی کیوں؟ بہتر ہو گا کہ ہم اِس فائونڈیشن کے توسط سے اُن تمام مسیحی شعراء و ادباء کو بھی سامنے لائیں جو کئی ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنا کلام چھپوا نہیں سکتے۔ اُس میں کچھ ایسے نام بھی تھے جو بہت اچھا اور پختہ لکھتے ہیں مگر لوگ اُن کے نام تک سے واقف نہیں۔ یوں ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ مسیحی شعراء و ادباء کا جس قدر بھی کلام دستیاب ہے اُسے ’’فاختہ فاؤنڈیشن‘‘ کی ویب سائٹ فاختہ ڈاٹ آرگ پر منتقل کر دیا جائے کہ کلام محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بصارتوں تک رسائی حاصل کر لے۔ اور یوں پہلا کلام ہمارا ہی تھا جو ’’فاختہ فاؤنڈیشن‘‘ کی ویب سائٹ کی زینت بنا۔ یاد رہے کہ ’’فاختہ فائونڈیشن‘‘ کا مقصد ’’ریختہ‘‘ کی طرز پر صرف مسیحی شعراء و ادباء کے کلام اور نگارشات کو محفوظ کرنا ہے۔ جس میں افسانہ نگار، مضمون نویس، کہانی نویس، کالم نگار اور شاعر و شاعرات کی تخلیقات کو محفوظ کیاجائےگا۔ جس میں علمِ عروض کے ماہرین سے حاصل کردہ اسباق بھی شامل کئے جائیں گے جو مبتدیوں کی راہنمائی کے لئے مؤثر ثابت ہوں گے۔ جن میں محترم اے آر ناظم ؔ صاحب کی تالیف ’’آئیے شاعری سیکھیں‘‘ اور عہدِ حاضر کے معروف ماہرِ علمِ عروض جناب ڈاکٹر عادل امینؔ سے حاصل کردہ اسباق سے استفادہ کیا جا سکے گا۔
آخر میں ہم اپنے اہلِ خانہ خصوصاً بہو سنتھیاؔ اور بیٹے امروزؔ کے تعاون کے ممنون ہیں کہ اُنہوں نے اِس مجموعۂ سُخن کی تیاری و ترتیب میں مکمل ساتھ دیا اور جس کے باعث یہ مجموعۂ کلام بروقت تیار ہو پایا۔
پروفیسر عارف پرویز نقیبؔ
کراچی، پاکستان
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید