Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
ہاجرہ نور زریاب۔ اکولہ، مہاراشٹر، بھارت - فاختہ

ہاجرہ نور زریاب۔ اکولہ، مہاراشٹر، بھارت

عارف پرویز نقیب صریرِ خامہ مطالعات: 79 پسند: 0

جب کسی قلم کار کی تحریر دل کی تہوں کو چھو جائے، تو احساس کی زمین پر ایک ہلکی سی لرزش محسوس ہوتی ہے—کچھ ایسا ہی تجربہ مجھے اُس وقت ہوا جب میں نے عارف پرویز نقیب کی ایک غزل فیس بک پر پڑھی۔
ان سے ملاقات تو کبھی نہ ہوئی، لیکن ان کے الفاظ نے گویا ان کی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان کی تحریر میں فکر کی گہرائی، جذبے کی شدت، اور الفاظ کا قرینہ سب کچھ ایسا ہے کہ قاری خاموش ہو کر دیر تک سوچتا رہ جائے۔
عارف پرویز نقیب صرف شاعر ہی نہیں، وہ ایک حساس دل اور بیدار ذہن رکھنے والے صاحبِ قلم ہیں، جو نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ مشاہدے کو بیان کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔

یہ چند سطور، دراصل ایک شکریہ ہے اُن لمحوں کا، جو ان کا کلا م پڑھتے وقت محسوس کیا عارف پرویز نقیب کی یہ منتخب شاعری نہایت گہرے احساسات، جدید فکری جہتوں اور عصری شعور کا خوبصورت امتزاج پیش کرتی ہے۔ اُن کی نظموں اور غزلوں میں درد، سوال، احتجاج، عشق، سماجی بے حسی، سیاسی ناانصافی اور انسانی جذبات کی پرتیں بڑی مہارت سے کھولی گئی ہیں چند باتیں
...
1. خاموشی کا علامتی استعمال: "بجھ گیا ہے دیا سو خاموشی..." جیسی نظموں میں خاموشی ایک علامت ہے – ناامیدی، تنہائی اور خدائی خاموشی کا۔ یہ اس عہد کی تصویر ہے جہاں مظلوم کی آہ بھی بےاثر ہے۔
2. محبت اور ہجر کی شدت: ان کی عشقیہ شاعری میں جذبات کی شدت، اندرونی کشمکش اور وفا کی سچائی بہت نمایاں ہے۔ مثلاً:
"زخم پہلے بھرے نہیں میرے
تُو نے پھر سے کمان کس لی ہے"
3. سیاسی و سماجی شعور: نظم "مرا دیس ہے اس دیس میں..." ایک بھرپور تنقیدی اظہار ہے، جہاں معاشرتی سچائیوں اور منافقت کو بےنقاب کیا گیا ہے۔
4. مکالماتی نظم: "میں کہتا ہوں کہ تم اپنی مجھے تصویر بھیجو نا..." ایک جدید انداز کی نظم ہے جس میں محبت کا مکالمہ فلسفیانہ سوالات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اور ہر سطر نئی جہت پر سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
5. بیان و زبان: ان کی زبان رواں، سادہ مگر بااثر ہے۔ تشبیہات، استعارے اور عارف پرویز نقیب کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ
عارف پرویز نقیب کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے عصری حسّیت، جذباتی گہرائی، اور فکری وسعت کو اپنے اشعار کا محور بنایا۔ ان کے کلام میں داخلیت اور خارجیت دونوں پہلو نمایاں ہیں۔ ذیل میں مختلف شعری جہات سے ان کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے:
...
1. موضوعات کا تنوع:
عارف پرویز نقیب کے اشعار میں موضوعات کی وسیع دنیا بکھری ہوئی ہے۔ ان کے ہاں:
معاشرتی ناہمواری،
سیاسی بے حسی،
ذاتی کرب،
محبت و جدائی کا نوحہ،
ذات کی تلاش،
خاموشی کا کرب
بھرپور انداز میں ابھرتے ہیں۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعے فرد اور سماج کے باہمی تعلق کو جس سادگی اور اثر پذیری سے پیش کرتے ہیں، وہ ان کی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔
...
2. اسلوب اور زبان:
ان کی زبان سادہ، رواں اور محاوراتی ہے، لیکن یہی سادگی گہرے مفہوم کا پیرایہ بن جاتی ہے۔ ان کا اسلوب مکالماتی بھی ہے، جو قاری کو براہ راست مخاطب کرتا ہے۔ مثلاً:
"میں کہتا ہوں کہ تم اپنی مجھے تصویر بھیجو نا۔۔
وہ کہتی ہے کہ روحوں کی بھلا تصویر ہوتی ہے؟"
یہ نظم گویا دو دلوں کے بیچ کی متضاد سوچوں کا منظرنامہ ہے جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔
...
3. تلمیحات اور علامتیں:
ان کے ہاں علامتی اظہار بھی ہے۔ "صلیب و دار"، "شبِ فرات"، "اہلِ کوفہ" جیسی تلمیحات واضح طور پر کربلا کی معنویات کو جدید تناظر میں بیان کرتی ہیں، جو ظلم، جبر اور ضمیر فروشی کی علامت بنتی ہیں۔
...
4. رومانوی رنگ اور جذبۂ محبت:
ان کی کئی غزلیں عشقِ مجازی کی وارداتوں سے پُر ہیں، لیکن ان میں محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ فکری نزاکت بھی ہے۔ مثلاً:
"زخم پہلے بھرے نہیں میرے
تُو نے پھر سے کمان کس لی ہے"
یہ اشعار جذباتی چوٹ اور انسانی بے وفائی کا استعارہ بن جاتے ہیں۔
...
5. سماجی و سیاسی شعور:
نقیب کی شاعری میں ایک باشعور فنکار کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اندھیرے، بےحسی، اور مظالم پر احتجاجی لہجے میں سوال اٹھاتے ہیں:
"یہاں جھوٹ پرور ہیں تخت پر، یہاں بے ضمیر ہیں راہبر
یہاں راستے، یہاں منزلیں سب ہیں لاپتہ، ذرا سوچیے"
...
6. بیانیہ قوت:
عارف نقیب کی بیانیہ شاعری خاصی مؤثر ہے۔ وہ مکمل کہانی یا کیفیت کو چند اشعار میں باندھنے کا ہنر جانتے ہیں، جیسے:
"میں کہ تھک کے سویا ہوں نا جگا مجھے
اور بھی کئی کام ہیں"
یہاں تھکن اور زندگی کے دیگر تقاضوں کے بیچ کشمکش کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
...
7. فنِ غزل اور نظم میں مہارت:
ان کی غزلیں کلاسیکی انداز اور جدید شعور کی آمیزش ہیں جبکہ مکالماتی نظموں میں وہ نئے لب و لہجے کے ساتھ. قاری کے دل تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔عارف پرویز نقیب ایک باشعور، فکری و جذباتی شاعر. ہیں۔ ان کے کلام میں درد کی گونج، سماج کی جھلک، اور عشق کی سچائی موجود ہے۔ وہ الفاظ کے ساتھ فلسفہ اور جذبہ بُنتے ہیں۔ ان کی شاعری صرف پڑھنے کی نہیں، محسوس کرنے کی چیز ہے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کی شاعری دل کی زبان، اور سماج کا آئینہ ہے۔
...
ہاجرہ نور زریاب
اکولہ، مہاراشٹر
بھارت
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید