Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
ابلیس کی انتخابی مہم - فاختہ

ابلیس کی انتخابی مہم

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 113 پسند: 0

ابلیس کی انتخابی مہم
ابلیس روز اول سے ہی انسان کا دشمن رہا ہے۔تاریخ کا کوئی ایسا دور خالی نہیں رہا جس میں اس نے انسانوں کو ورغلایا نہ ہو۔اس نے اپنا سب سے پہلا وار باغ عدن میں آدم اور حوا پر کیا۔ ممنوعہ پھل کے بارے میں شک پیدا کر کے کھانے پر مجبور کر دیا۔انہوں نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر ممنوعہ پھل کھا لیا۔یوں دنیا میں گناہ کا آغاز ہو گیا۔بعد آزاں دنیا بھر میں گناہ کی مسلسل تحریک شروع ہو گئی۔جس نے دنیا کو جنگ و جدل میں بدل کر رکھ دیا ۔نسلیں ،قومیں، قبائل ، گروہ اور خاندان گناہ کی دلدل میں پھنستے گئے۔یہ سلسلہ آج تک رکا نہیں، تھما نہیں، ہٹا نہیں بلکہ مسلسل سرایت پذیر ہے۔یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو گیا۔گمراہی اور برگشتگی اس کی فطرت کا خاصا ہے۔وہ ا سے زیر استعمال لاتے ہوئے نسل در نسل محو سفر ہے۔ اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اس نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہے۔وہ اپنے منصوبوں میں اس قدر کامیاب ہے ہمیں جگہ جگہ اس کی دہشت گردی کے اثباب ملتے ہیں۔ بد قسمتی انسان کی ہے کہ وہ اس کے جال میں پھنس جاتا ہے۔دراصل گناہ کی لذت و تاثیر ہی ایسی ہے جو فطرت کو آلودہ بنانے میں چند سیکنڈوں کا سہارا لیتی ہے ۔بنیادی طور پر زندگی کے تین بڑے دشمن ہیں۔ان میں پہلا آنکھوں کی خواہش دوسرا زندگی کی شیخی اور تیسرا جسم کے کام ہیں ۔یہی جہنم کی بھٹی کہ وارث بناتے ہیں۔یقینا ایسے کام زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں ۔گمراہی اور برگشتگی کا موجب بنتے ہیں ۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ یہ کہانی باغ عدن سے شروع ہوئی ہے اور رہتی دنیا تک اپنی تاریخ دہراتی رہے گی۔قومیں نسل در نسل اس کی گرفت میں آ رہی ہیں۔ شیطان اتنا طاقتور ہے کہ وہ اپنے فرض کو خاص مہم کے تحت لا رہا ہے۔ اس کے ارادوں میں خون ریزی ، بغاوت ، ہلاکت ، تہمت ، الزام تراشی ، لالچ ، ڈاکہ ، بے چینی ، کڑھن ، جلن ، بے چینی ، بے وفائی ، دھوکہ دہی ، شراب نوشی ، برے خیالات شامل ہیں ۔وہ اپنی اس مہم کو شب و روز چلانے میں سرگرم ہے ۔وہ 24 گھنٹے متحرک رہتا ہے۔اس نے انسانوں کو تقسیم کرنے کے لیے دولت کی چابی استعمال کی ہے ۔وہ اس چابی کو صدیوں سے استعمال کر رہا ہے۔وہ آج تک نہ ٹیڑھی ہوئی ہے اور نہ ٹوٹی ہے۔ساری دنیا اس کے قبضے میں پڑی ہوئی ہے ۔وہ دوسرے درجے کا رب ہے۔وہ زمین کے چاروں کونوں میں گھومتا رہتا ہے۔اسے جہاں موقع ملتا ہے۔اپنی انتخابی مہم شروع کر دیتا ہے۔وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ انسانی فطرت بہت جلد آلودہ ہو جاتی ہے ۔اسے صرف لالچ کی پیشکش ہی کافی ہے جو اس کی ساری فطرت کے رنگوں کو پھیکا بنا دیتی ہے۔ابلیس کی پہچان کے کئی رنگ و نام ہیں ، جو اس کی اصلیت اور مکار پن کو ظاہر کرنے میں پیش پیش ہیں۔مثلا کبھی اسے ابلیس ، کبھی اسے شیطان ، کبھی اسے اژدہا، کبھی اسے خونی، کبھی اس سے بعل زبول، کبھی اسے فتنہ اور کبھی اسے جھوٹوں کا باپ کہا گیا ہے۔انسان روز مرہ زندگی میں بہت سے دکھوں اور آزمائشوں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ اسے اپنے ارد گرد کے ماحول سے شرارت کی ایسی اٹھتی ہوئی چنگاریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔جن کی طاقت اور جلن انسان کو راکھ بنا دیتی ہے۔انسان کی فطرت میں فتنوں کے جال اس قدر طاقتور ہیں جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے ۔وہ اتنی طاقتور اور مضبوط ہیں جہاں انسان کے سارے حربے ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہاں وہ جیت جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انا کی رسیوں نے انسان کو جس مضبوطی سے باندھ رکھا ہے۔ وہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتیں ۔تعجب ہے جگہ جگہ انسان دوسروں کو برا کہتا ہے ۔اسے دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں۔پتہ نہیں وہ اپنی ذات کا احتساب کیوں نہیں کرتا؟ اسی بات نے انسانوں کو ایسا دھوکہ دیا ہوا ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔اگر اس روئ زمین پر انسانوں کے درمیان پھیلی ہوئی زہر ناکیوں کا جائزہ لیں تو طبیعت یک دم نڈھال ہو جائے گی۔اس پر نزع کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔وہ ادمھوا ہو کر گر پڑے گا۔اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا۔یہ سلسلہ کسی ایک انسان تک محدود نہیں بلکہ پوری نسل انسانی قیدو بند کی صحبتیں برداشت کر رہی ہے ۔دنیا میں طرح طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ہر انسان کی فطرت اور انتخاب فرق فرق ہے۔اس حقیقت کی کئی مثالیں ہیں ۔مثلا کوئی راست بازی کی طرف محو سفر ہے ، کوئی گناہ کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، کوئی شراب نوشی میں مست ہے ، کوئی گالیاں بکنے میں مصروف ہیں ، کوئی جھوٹ بولنے میں ماہر ہے ، کوئی نفاق ڈالنے میں سرگرم ہے ، کوئی لڑائی جھگڑوں میں پھنسا ہوا ہے ، کوئی خطا کاروں کی صحبت میں بیٹھتا ہے ، کوئی ٹھٹھا بازوں کی محفل کا انتخاب کرتا ہے ، کوئی شرارت کے لیے اپنے پاؤں کو حرکت دیتا ہے ، انسان انسان کا دشمن بن گیا ہے ، دنیا داری نے انسان کو اس قدر تباہ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ خود کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی مسلسل تباہ کر رہا ہے۔ شر انگیز قوتیں مسلسل اپنا سر اٹھا رہی ہیں۔ ذہنوں پر بدی کا نشہ چھایا ہوا ہے۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کی ٹھان رکھی ہے۔گناہ کی مسلسل پرستی دیکھتے ہوئے وبائیں حرکت پذیر ہیں۔ وہ انسانوں کو نگل رہی ہیں ۔ زمین تھرتھراہٹ اور کپکپاہٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ سمندروں میں طوفان اٹھ رہے ہیں۔ سمندر اپنی اپنی جگہ شور کر رہے ہیں ، فطرت نافرمانی کے کوڑھ سے بھر رہی ہے ، معلوم نہیں انسان ان باتوں کو جاننے کے باوجود بھی ابلیس کے خلاف متفق نہیں ہو سکیں ۔اس کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہو سکا ۔علم کی روشنی ہونے کے باوجود بھی گناہ کے ساتھ سمجھوتہ خدا کی محبت سے خالی ہونے کا واضح ثبوت ہے ۔انسان خواہ مخواہ اپنی ذات کو دھوکہ دے رہا ہے ۔اس کی خود ساختہ عقل اسے حقیقی راست بازی سے دور لے جا رہی ہے ۔اگر ہم ابلیس کی مکاری کا شفاف چارٹ تیار کریں تو اس پر واضح طور پر خاندانوں کی بکھرنے کا نشان ہوگا ، قوموں میں جنگ و جدل کا سما ہوگا ، نفرت و فرق کے نشان ہوں گے ۔ دنیا میں حبس زدہ ماحول ہے ۔سانس لینے میں دشواری ہے ۔وہ اپنی انتخابی مہم میں مسلسل کامیابی حاصل کر رہا ہے ۔اگر ہم ان سارے حقائق کو جاننے کے باوجود بھی بے خبر رہتے ہیں تو یہ ہماری کوتاہی ہے ۔لاعلمی ہے ۔بے بسی ہے ۔اتحاد سے محرومی ہے ۔آئیں اگر ہم دنیا پر غلبہ پانا چاہتے ہیں۔ابلیس کو شکست دینا چاہتے ہیں ۔اس کی مہم ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔تو ہمیں اس کے جلال کے لیے آگے بڑھنا ہوگا ۔لڑنے کے لیے اتحاد کا لباس پہننا پڑے گا ۔خیالات بدلنے کے لیے مسلسل دعا کی ضرورت ہوگی ۔ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانا ہوگا ۔خود غرضی ختم کرنا ہوگی ۔ایمان کی شمع جلانا ہوگی ۔ایسا تب ہی ممکن ہو سکے گا ۔جب ہم نے اس بات کو گہرائی سے جان لیا کہ ابلیس کی انتخابی مہم انسانوں کو کس قدر گھائل کر رہی ہے۔ہمیں فتح یابی حاصل کرنے کے لیے ایمان امید اور محبت کا چراغ روشن کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید