Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
فیبا ریڈیو کی خدمات کا اجمالی جائزہ - فاختہ

فیبا ریڈیو کی خدمات کا اجمالی جائزہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 108 پسند: 0

فیبا ریڈیو کی خدمات کا اجمالی جائزہ
خدا نے انسان کو روز اول سے سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے۔ انسان نے روز بروز خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر دور اور زمانے میں عقل و دانش کا استعمال کر کے اس بات کو ثابت کر دیا
کہ وہ عقل سلیم میں کتنا باکمال ہے۔ اس حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قدرت نے اسے دریافتوں اور ایجادوں میں جو منفرد مقام بخشا ہے وہ رہتی دنیا تک تاریخ کا حصہ رہے گا۔اگرچہ دنیا حیرتوں کا جہان ہے۔جہاں ہر نئی دریافت اور ایجاد تہلکہ مچا دیتی ہے۔ اس کی چاہت ہر قلب و ذہن تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔عموما کسی نئی چیز کے آتے ہی عوام الناس میں اس چیز کی طلب ، تڑپ اور قوت خرید کا رحجان بھی بڑھ جاتا ہے۔ بلا شبہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے زندگی کی ہر شعبہ میں خوب سے خوب تر ترقی کی ہے۔اپنے لیے نئی نئی سمتیں دریافت کیں ہیں۔ اس امر کے ساتھ ساتھ اپنے ہر فن اور شعبہ کو بام عروج پر پہنچایا ہے۔ وہ دنیا میں حیران کن دریافتوں اور ایجادوں کا موجد بنا ہے۔ اگرچہ سائنسی ایجادات نے بنی نوع انسان کے لیے جو آسانیاں پیدا کی ہیں۔وہ فروغ پانے کے ساتھ ساتھ رشک و تحسین کے جذبہ سے بھی لبریز نظر آتی ہیں۔
دنیا کی ایجادوں میں ایک حیرت انگیز ایجاد ریڈیو ہے جس کی اثر انگیزی کے اثبات اس وقت دُنیا بھر میں موجود ہیں۔
اس عمیق و لاثانی کاوش کا کریڈٹ مارکونی کے نام جاتا ہے۔ جس نے پُوری دُنیا کو ابلاغ کا خُوبصورت تحفہ دیا۔مورخین کا خیال ہے کہ مارکونی نے نیکولا سٹیلا سے ریڈیو چرایا تھا کیونکہ نیکولا سٹیلا وائرلس ریڈیو بنانے والا پہلا شخص تھا جس نے مارچ 1893ء میں پہلا عوامی مظاہرہ کیا تھا عین ممکن ہے کہ مارکونی نے اس مظاہرے سے وائرلیس ریڈیو کی معلومات حاصل کیں ہوں۔ اس حقیقت کے برعکس مارکونی کو ہی ریڈیو کا پہلا موجد مانا جاتا ہے۔جس نے ثابت کیا کہ ریڈیو کی لہروں کے ذریعے بات چیت ممکن ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق اس نے 1865ء میں پہلا ریڈیو سگنل موصلات بھیجا اور وصول کیا جو بعد ازاں عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے لگا۔ یہ بات ہم سب کے لیے دلچسپی کا محور ہے کہ ریڈیو کی سحر انگیزی کے باعث ہر سال دنیا بھر میں 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونسکو کے تحت منایا جاتا ہے۔جس کا واحد مقصد بین الاقوامی سطح پر ریڈیو کی اہمیت ، بین الاثقافتی اور بین السانی فوائد کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔یونسکو کی جنرل کانفرنس میں 36 ویں اجلاس میں 10 نومبر 2011 کو پیرس میں اس نے اپنی قرارداد 63/ 36-C کے ذریعے ہر سال 13 فروری کو یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی جس کو منانے کا باقاعدہ آغاز 2012 سے شروع ہوا۔ جسے اب ہر سال تواتر و تسلسل کے ساتھ منایا جاتا ہے ریڈیو کی دستیابی نے 120 سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی نشریات کو فعال، سحر انگیز اور اپنے سامعین کے قلب و ذہن تک رسائی حاصل میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔یونیسکو کی اطلاع کے مطابق ریڈیو دنیا بھر میں 44 ہزار اسٹیشنز کے ذریعے پانچ بلین لوگوں تک اپنی نشریات پہنچا رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریڈیو دنیا کی 75 فیصد آبادی تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔صرف امریکہ میں ہی 272 ملین افراد ہفتہ وار ایڈ سنتے ہیں جو کسی دوسرے ابلاغ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
ریڈیو پاکستان 67 براڈ کاسٹنگ یونٹس، 33میڈیم وویز، سات شارٹس وویز اور 27 ایف ایم چینلز کے ذریعے اپنی نشریات ملک بھر کے لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔قیام پاکستان کے وقت صرف تین ریڈیو اسٹیشن فعال تھے جن میں لاہور ، پشاور اور ڈھاکہ کے نام سرفہرست ہیں۔ اس وقت ریڈیو پاکستان 28 زبانوں میں اپنے معلوماتی پروگرام اور خبریں نشر کررہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 51 ہزار سے زائد ریڈیو اسٹیشنز قائم ہیں جو کروڑوں افراد تک اپنی نشریات پہنچا رہے ہیں ۔لہذا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ ریڈیو اظہار کا منفرد،سنسنی خیز، دل چسپ، حیران کن ، بااثر اور موثر ذریعہ ہے جس کی نشریات کو فضائی لہروں کے ذریعے عوام الناس تک پہنچایا جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج اِس چھوٹے سے ڈبے میں ساری دُنیا سمائی ہوئی ہے اور اس کے اثرات وثمرات دُنیا بھر میں بکھرے پڑے ہیں۔ لوگ آج بھی ریڈیو کی نشریات کو اُتنی ہی دل چسپی سے سنتے ہیں۔جس قدر یہ لگاﺅ ماضی کی یادوں میں پوشیدہ تھا۔ ریڈیو نے اپنی سنسنی خیزی کے باعث کسی بھی زمانہ میں اپنی اہمیت کم نہیں ہونے دی۔ بلکہ ہر دور میں نئی جہات ، نئی امیدوں ، نئی اصلاحات اور نئے طرز عمل پر عمل پیرا ہو کر دلچسپی کو قائم رکھا ہے۔ سائنس نے انسان کو 19وی صدی میں اُفق پر منڈلانے کی توفیق بخشی۔ مواصلات کے نظام کو وسعت بخشی۔یہ کیسا کرشمہ ہے کہ مارکونی نے ایک چھوٹے سے جادوئی ڈبے کے ذریعے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔خیر ہر انوکھی ایجاد کا اپنا اثر و رنگ ہو تا ہے جو اپنی انفرادیت ، ہمہ گیریت اور آفاقیت کے باعث معاشرے میں روز بروز اپنی جڑیں مضبوط کر تا ہے۔اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ سائنس نے بنی نوع انسان کو آسائشوں کا جو تحفہ آج دیاہے ماضی ایسی دلکش نظیر سے خالی تھا۔چونکہ ماضی میں انسان کے پاس نہ عالی شان عمارتیں تھیں، نہ زرق برق و الا لباس،نہ جدید مشینری،نہ جدید ٹیکنالوجی، نہ جدید ریسرچ، نہ میڈیسن کا علم،نہ ابلاغ کے موثر ذرائع، نہ بیماریوں کا علاج، نہ معدنیات کا علم اورنہ ہی ضروریاتِ زندگی کی پروقار آسائشیں تھیں۔بلکہ انسان ایک نامکمل اور اُدھوری زندگی گزار رہا تھا۔ اس لیے اُسے وقت کے ساتھ مندرجہ بالا علوم کا کھوج لگانا پڑا جس نے وقت کے سا تھ ان گنت مسائل بھی حل کئے۔ زندگی کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ جدتوں اور مہارتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ ترجیحات اور ترغیبات کو وسعت بخشی۔ دراصل مذکورہ حقائق کو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحقیق و جستجو کاعنصر ہی زندگی کو منظم اور باوقار بنا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر دور کے اپنے نفسیاتی ، معاشی ، تہذیبی ، تمدنی اور ثقافتی اثرات ہوتے ہیں جو کسی چیز کی معنویت اور مقصدیت کا حدود اربع متعین کرتے ہیں۔انسان انہی ضرورتوں ، سہولتوں اور دیگر اہداف و مقاصد کہ حصول کے لیے شب و روز محنت کرتا جاتا ہے۔
یوں یوں وقت گزرتا گیا انسان کی عقل ودانش بھی بڑتی گئی جس کے نتیجے میں نت نئی دریافتیں بھی منظرِ عام پر آنا شروع ہو ئیں۔اُن میں ایک ریڈیو کی ایجا د بھی ہے۔اگر الہی طور پر اس حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ خُدا کی
برکا ت کا ثمر ہے۔اس لیے میں یہ کہنے میں عار محسو س نہیں کرتا کی حیرتوں کے جہان میں دریافتوں کے عناصر موجود ہیں جنہیں خُدا کسی بھی انسان کے وسیلہ سے عیاں کر سکتا ہے۔ اگر آپ گلوبل ولیج کا مطالعہ کریں
تو اس روئ زمین پر دریافتوں اور ایجادوں کی ان گنت انواع و اقسام ہیں۔جسے دیکھ کر انسان کا دل بے اختیار ہو کر خدا کی تعریف و توصیف پر مجبور ہو جاتا ہے۔اگرچہ زبان قوت گویائی کا ایک چھوٹا سا عضو ہے جو اظہار و بیان میں کمال ہنر رکھتا ہے۔یاد رکھیں ! حقیقت کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ زندہ جاوید رہتی ہے۔
حقائق کبھی بھی مصنوعی رنگوں میں نہیں ڈھلتے۔ جستجو کبھی بھی مغلو ب نہیں ہوتی۔بلکہ تحقیق و تدوین کے مزید میدان تیار کرتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اِس سے مستفید ہو سکیں۔ویسے انسان بھی کیا چیز ہے۔جسے خدا نے حکمت و دانائی بخشی۔از روئے بائبل حضرت سلیمان کو حکمت و دانائی کا معمار سمجھا جاتا ہے جس کی عمدہ مثال صبا کی ملکہ اس کی حکمت سننے کو آئی تھی۔ اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی حکمت کا دروازہ بند نہیں ہوا بلکہ آج بھی اسی تواتر و تسلسل کے ساتھ جار ی و ساری ہے۔ ہماری دنیا میں روز بروز نت نئی دریافتیں و ایجادیں منظر عام پر آرہی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو بالکل بد ل دیا ہے۔مثلا اس نے پرانی طرز زندگی چھوڑ کر نئی طرز زندگی اپنا لی ہے۔ میلوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا ہے۔ ایمرجنسی کے نافذ العمل اصولوں نے زندگی کو یکسر تبدیل کیا ہے۔ الغرض ہر چیز اپنے اندر جدت کا پہناوا رکھتی ہے۔یہ لکھتے ہوئے دلیری محسوس کر رہا ہوں کہ میرے کئی فاضل دوست فیبا ریڈیو کے اعزاز میں قلمی دوستی کا ثبوت دے چُکے ہیں جو اُن کے قلبی لگاؤ کا منفرد جذبہ ہے۔ یہ حیران کن مکاشفہ ہے کہ خُدا نے ہر انسان کے دل و دماغ میں کچھ ایسے عناصر پنہاں رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے باعث برکت بن جاتے ہیں۔یہ خُدا کی قدرت ہے کہ اُس نے انسان کے اندر تحقیق جستجو کا جو بیج بُویا ہے تاکہ وہ کل اس کا پھل کھا سکے ۔اگر انسان کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو علم ِ نفسیات کے باعث ہمیں اِس بات کا شعور ملتاہے کہ انسان کی فطرت میں میں رنگِ کائنات کو بیان کرنے کا جو جذبہ موجود ہے۔ وہ بڑا منفرد اور قابل ستائش ہے۔
بات صرف کریدنے، الفاظ کا چناﺅکرنے، ادا کرنے ، منظرِ عام پر لانے اور موقع محل کے مطابق اسے قوسِ قزح کے رنگوں میں پیش کرنے یا دکھانے کا ہنر ہوتا ہے تا کہ دیکھنے اور سننے والے کا دل بے اختیار ہو کر اسے اپنانے پر مجبور کر دے۔زندگی کے کسی بھی میدان میں تڑپ، لگن، محبت، وفا، اشتیاق، تحقیق، جستجو، علم، جذبہ، پاکیزگی انسان کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔جب کسی معاشرے میں اخلاقی قدروں کی پامالی شروع ہو جائے۔ اور وہ بدی کے خمیر کی تصویر پیش کرنے لگے تو پھر لو گوں کو سلجھانے،منانے اوررویوں کو متحمل کرنے کے لیے ایسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو موثر بھی ہو اور سحر انگیز بھی۔ میری نظر میں زندگی کو رواں دواں اور قلب و ذہن کو علم و ادب اور مکاشفاتی بھوک و پیاس بجانے والا ایسا مواصلاتی چینل صرف فیبا ریڈیو ہے جو رنگِ کائنات کو خُوبصورت انداز میں پیش کرنے میں پیش پیش ہے۔
یہ چینل راہوں میں بکھرے کانٹوں کو اکٹھا کرتا ہے۔محبت کی شمع جلاتا ہے۔خوش رہنا سکھاتا ہے۔جہالت دُور کرتا ہے۔روحانی خوراک مہیاکرتا ہے۔نفرت و فرق مٹاتا ہے۔وفا کا درس دیتا ہے۔ وفاداری کا لبادہ اوڑھنا سکھاتا ہے ۔سُروں کے ذریعے رُوحوں کو آسودہ کرتا ہے۔یقینا ایسی خوبیوں اور کرشموں کا استحقاق فیبا ریڈیو کے پا س موجود ہے جو اس کاوش میں کامیاب نظر آتا ہے ۔میں اس لازوال خدمت میں ڈائریکٹر فیبا ریڈیو جناب سلیم شہزاد اور ان کی پُوری ٹیم کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جن کی محنت شاقہ کے باعث فیبا ریڈیو کے پروگرام ہفتہ بھر جاری رہتے ہیں۔نشریات کا شیڈول ملاحظہ کیجئیے۔ اگر بات دِل میں اُتر جائے اور رُوح کو مطمئن کردے تو آپ ان پروگرامز کے باعث ہفتہ بھر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔پروگرام حسبِ معمول بروز اتوارکو با عنوان (ہمیشہ کی زندگی صُبح 7 بجے) بروز سوموار(کلامِ حق اردو اور سچیاں گلاں پنجابی صُبح 7 بجے) بروز منگل( عروج و زوال صُبح 8 بجے ) بروز بدھ ( الہامی پروگرام صبح سات بجے ) بروز جمعرات ( گیتوں بھرانذرانہ صُبح 7 بجے) بروز جمعہ( مثالی سفر/ چراغ راہ اردو ) بروز ہفتہ (مسیحی اُردو ڈرامہ) علاوہ ازیں FM ریڈیو پر بھی فیبا کے پروگرام مختلف اوقات میں سُنے جا سکتے ہیں۔سائبان بروز جمعرات شام آٹھ بجے ایف ایم مظفرآباد،جذبہ جواں بروز بدھ شام 6 بجے ایف ایم گوجرانوالہ اور رنگِ کائنات بروز جمعہ شام 6 بجے شام ایف ایم حسن ابدال پر سُنے جا سکتے ہیں۔یہ پروگرام مختلف زُبانوں میں پیش کیے جا تے ہیں۔ خاص طور پر اُردو ، پنجابی، سندھی، سرائیکی،چترالی ، ہندکو، پشتو،بلتی وغیرہ۔ فیبا ریڈیو کا شعبہ خط و کتابت بھی ہے جس سے سامعین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔بعض خطوط کے جواب ریڈیو پر اور بعض کے تحریری طور پر دئیے جاتے ہیں۔اس ریڈیو کی باقاعدہ نشریات 1974ء میں شروع ہوئیں جس کا لو ہا قومی اور بین الاقومی سطح پر مانا گیا ہے۔دُنیا بھر میں تقریباً 70 زبانوں میں پروگرام پیش کئے جا تے ہیں۔ جو 30 ممالک میں سُنے جا تے ہیں۔ یاد رکھیں! کچھ باتیں اور یادیں انسان کے دِل کے دروازہ پر ہمیشہ دستک دیتی ہیں۔
خواہ وہ اچھی ہوں یا بُری اُنہیں دِل سے کبھی نہیں بلایا جاتا۔کیونکہ اس حقیقت کا تعلق ہی دِل سے ہے۔ جب ہمارا دِل گواہی دے کہ فیبا ریڈیو ہمار ی پہچان و شان ہے پھر اتحاد و اتفاق کے نعرے پُوری دُنیا میں گُونج پیدا کریں گے۔ ایسی کامیابیاں عموماً باہمی اشتراک کے باعث وجود آتی ہیں تب جا کر
خُوشیوں کی دھنگ دیکھنے کو ملتی ہے۔پھر بُجھے دِل جذبوں سے سرشارومعمو ر ہو جاتے ہیں۔خزاں بہار میں ڈھلنے لگتی ہے۔ جیون خوشیوں سے بھر جا تا ہے ۔ روٹھے مان جاتے ہیں۔ سنگ دِل گوشتین دِل بن جا تے ہیں۔ بھٹکے ہوئے صراطِ مستقیم کی راہ پر آجا تے ہیں۔ دل کی نیاّ آباد ہو جا تی ہے۔ گلے شکوے دُور ہو جاتے ہیں۔ یقین و تسکین کامل ہونے لگتے ہیں۔ نفر ت و فرق کی فضاءمٹنے لگتی ہے۔
محبت کی شمع روشن ہونے لگتی ہے۔ خُوشیاں لوٹ آتی ہیں۔ تلخیاں مٹ جاتی ہیں۔ فاصلے سمٹ جاتے ہیں ۔ سوئے بیدار ہو جاتے ہیں ۔ افسردہ دل خُوش ہو جاتے ہیں۔ میل جول بڑھنے لگتاہے۔ معاشرہ امن ، محبت ، خلوص ، اخوت اور بھائی چارے کی تصویر پیش کرنے لگتاہے۔ آخر میں میں عزتِ مآب ڈائریکٹر سلیم شہزاد اور اُن کی ساری ٹیم کو دِل کی
اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ،جنہوں نے اپنی زندگی فیبا ریڈیو کی نشریات کے لیے وقف کیں۔ میں فیبا کے لیے دُعا گو ہوں کے اس کی لہریں ہر دِل سے ٹکراتی رہیں اور لوگ فیبا کی نشریات کو سُننے کے لیے ہر وقت بے قرار رہیں۔ خُدا ایسی مسیحی منسٹریوں کو جو لوگوں کو ابدی بادشاہی کے لیے تیا ر کرتی ہیں۔ان کے اہداف و مقاصد ہمیشہ
قائم و دائم رہیں تاکہ وہ اپنی چاشنی، لذت اور تاثیر میں لطافت کا برتاؤ رکھیں۔
ڈاکٹر شاہدایم شاہد( واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید