Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
زندگی کا شکوہ - فاختہ

زندگی کا شکوہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 63 پسند: 0

زندگی کا شکوہ
خود سے سوال کریں اور خود ہی اس کا جواب تلاش کریں ۔

زندگی بنی آدم کے لئے ایک سوال ہے ۔نہ کوئی اس کا شروع ہے اور نہ آخر ہے ۔بس نسل در نسل ایک بہاؤ ہے جو روز اول سے چلا رہا ہے ۔
آج دنیا میں زندگی کی بدولت ہی گہما گہمی ہے ۔اس کا وجود آفتاب صداقت کی مانند ہوتا ہے ۔اور جدائی سے غم کے آنسو پینے پڑتے ہیں ۔یہ جسم و روح کی ملکہ ہے ۔قدرت کے اصول و قوانین یکساں ہوتے ہیں ۔نہ ان میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی تغیر و تبدل کے راستے۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہمارا جسم زمین بوس ہوتا ہے اور روح آسمان پر پرواز کر جاتی ہے ۔
لیکن زندگی اپنی پرواز سے پہلے ہم سے چند سوالات پوچھتی ہے ۔اور اپنی صحت و صداقت کا پرچار ہم سے یوں کرتی ہے ۔دیکھو میں بے زبان بن کر تمہارے جسم و روح کا حصہ بن کر رہتی ہوں ۔تم میرے ساتھ جیسا بھی سلوک کرو ۔میں اسے خاموش تماشائی بن کر سہ لیتی ہوں ۔لیکن میری قوت برداشت دیکھو ۔میں چپکے سے سارے ماجرے کو دیکھتی ہوں ۔تم مجھے رسوا بھی کرتے ہو اور میرے جذبات کو ٹھیس بھی پہنچاتے ہو ۔
مجھ سے گلے شکوے بھی کرتے ہو ۔حیران بھی ہوتے ہو اور پریشان بھی ۔اور اس بات کو بھی جانتے ہو کہ میرے جانے کے بعد تمہارا نام و نشان مٹ جاتا ہے ۔تمہاری سرد آہوں نے میرا ستیاناس کر دیا ۔اب میرے پاس غمگین صورت اور غموں کا ہجوم ہے ۔
کاش تم میرے مقصد سے واقف ہوتے اور جانتے کہ میں تمہارے وجود کا حصہ کیوں بنی ؟ لیکن تمہارے کردار نے مجھے داغدار کیا ۔حالاں کہ میں آسمان سے پاکیزگی کا تصور لے کر اتری تھی ۔پر تمہارے گناہوں نے میری روح کو اس قدر رنجیدہ اور آلودہ کر دیا کہ اب میں واپس جانے سے شرمسار ہوتی ہو ں ۔تم نے دنیاوی اہداف و مقاصد کے لیے میرا حلیہ بگاڑ دیا ۔تم اپنی خواہشات کی غلام بن کر میرا حشر نشر کرتے رہے ۔
تمہاری ارادوں اور خیالوں نے میری تصویر تک بگاڑ دی۔ اب میرا چہرہ بدصورت ہے ۔لیکن جس خاک نے مجھے خس و خاشاک کیا ہے ۔وہ آلودگی کی کثافتیں اور برے خیالات کی ریت ہے ۔وہ ہوا جس طرح بھی چلے گی ۔اس کی گرد دوسروں کو گندا کرے گی ۔
لہذا ان باتوں سے میرے اوپر خوف کی فضا طاری ہو گئی ہے ۔مجھے تو اس بات پر بھی حیرانگی ہے ۔کہ میں تمہارے نتھنوں میں زندگی کا دم بن کر چلتی ہوں ۔میں نے تمہارے کانوں میں بھی سرگوشیاں کی ہیں ۔لیکن شاید تمہارے کان بہرے تھے اور میری آواز تمہارے کانوں تک نہ پہنچ سکی ۔
ّمیں نے اس بات کو بھی محسوس کیا کہ تمہاری قوت شامہ جاتی رہی ۔نہ تم نے میرے پیار کی خوشبو لی اور نہ اپنے اندر جذبات کا دیا جلایا ۔
میں زندگی کے آخری دم تک تمہارے ساتھ رہی۔اس کے باوجود بھی تم نے مجھے پیار نہیں کیا ۔بلکہ تم جسم و روح کی لڑائی میں پڑ گئے ۔تم بکھر گئے ۔ تم نے آزادی کا نعرہ لگا کر غلامی کی زنجیریں باندھ لیں ۔کاش تم اس بات کو جان پاتے کہ میں نسلوں ، قبیلوں ، گروہوں اور مذاہب میں بلاتفریق اتری ۔ لیکن میں اس ماجرے کو لگاتار دیکھتی رہی۔کہ تمہاری ترجیحات نے مجھے ہمیشہ لہولہان کیا ۔اس سے انسانیت بشریت اور آدمیت کا شیرازہ بکھر گیا ۔
اب میرے محسوسات اور احساسات کا دروازہ کھل گیا اور میں نے جان لیا کہ تم نادان نکلے ۔نہ تم نے اپنی کتاب کے اوراق میں اپنے اعمال لکھے اور نہ کبھی اپنا احتساب کیا ۔مجھے تم سے بارہا یہ شکوہ ہے ۔کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کھیل کھیلا ہے ۔اب میں اپنی وراثت کے حقوق سے محروم ہو گئی ہوں ۔ میری اصل جائے پیدائش تو آسمان تھی ۔ اب میں واپس لوٹ کر کہاں جاؤ ں ؟ شاید اب میرے لیے فردوس کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے ۔کیونکہ گناہ اور پاکیزگی کا کبھی ملاپ نہیں ہو سکتا ۔ یہ میرے ارمانوں کا شکوہ ہے ۔کاش جیتے جی کوئی میرا شکوہ سن لیتا اور میرے اصلی مقام پر مجھے واپس لوٹا دیتا ۔

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ کینٹ
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید