Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
علم و ادب کی کہکشاں کا سفر - فاختہ

علم و ادب کی کہکشاں کا سفر

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 60 پسند: 0

علم و ادب کی کہکشاں کا سفر
زندگی نعمت خداوندی ہے۔خدا کا عطیہ ہے۔رب کائنات کی امانت ہے۔نسل انسانی کی معراج ہے۔نہ اس کا شروع اور نہ آخر ہے۔بلکہ نسل در نسل ایک بہاؤ ہے۔
صدیوں سے یہ سفر جاری ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے۔یہ سلسلہ اپنی منازل طے کرتا رہے گا۔ زندگی کی روداد بڑی دلچسپ ہے۔قدرت کاملہ نے اسے مختلف تشبیہات واستعاروں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
مثلا یہ خیال کی طرح ہے۔ پرچھائی کی مانند ہے۔ پانی کی طرح ہے۔پھول کی طرح ہے۔آئینے کی طرح ہے۔ بخارات کی طرح ہے۔ یہ راہ و رسم کی منزل سے پوری طرح باخبر ہے۔تاریکی میں بھی نور سحر کی لپک رکھتی ہے۔ یہ اپنی رگ رگ میں حرارت غریزی رکھتی ہے۔ یہ اپنے اندر صفات کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ برکات کے درجات رکھتی ہے۔ اپنا زمینی سفر دنوں ،مہینوں، سالوں اور صدیوں میں طے کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صدیوں سے اپنا سفر جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی کوکھ سے محبت کی پنکھڑیاں پھوٹتی ہیں۔ یہ اپنے اندر وسیع القلبی اور وسیع النظری جیسی صفات رکھتی ہے۔ فلک سے اتری ہے اور فلک کی معطر فضاؤں میں کوچ کر جاتی ہے۔ اس نے اب تک دنیا کے اربوں کھربوں انسانوں میں بس کرسفر کیا ہے۔اب تک یہ سفری روداد اپنے کرشمات اور معجزات کی بدولت قائم ہے۔ لیکن یہ انفرادیت کا لبادہ اس وقت اوڑھتی ہے جب یہ صفات کو اپنے اندر پرورش کا موقع دیتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اس کی نشوونما کے مدارج ماحول اور معاشرے کے مطابق فروغ پاتے ہیں۔یہ بات انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو دلچسپ یا غیر دلچسپ بناتا ہے۔ یقینا جو لوگ تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ اور دلچسپی فرق فرق زاویوں کی عکاسی کرتی ہے۔یقینا تعلیم و تربیت کا انفرادی لباس انسان کو بھیڑ سے الگ کر دیتا ہے۔ شخص سے شخصیت بنا دیتا ہے۔ سوچ کو مثبت اور کھرا بنا دیتا ہے۔ عموما زندگی اس وقت قوس قزح کا منظر پیش کرتی ہے جب اثر قبولیت کو فطرت میں پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک ایسی شخصیت پر اپنے قلمی تاثرات بند کر رہا ہوں جس کی علمی و ادبی پرواز کا ستارہ بڑا روشن تھا۔ اس نے ساری زندگی علم و ادب کی ترویج کے لیے وقف کی۔ عمر بھر درس و تدریس سے منسلک رہیں۔ اگر ان کی تدریسی خدمات کا احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 32 سال کنیرڈ کالج لاہور میں اور پانچ برس ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دیں۔ سینکڑوں طلبہ و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان کی زندگی میں جس روشنی کا چراغ جل جائے اس کی کرنیں دوسروں کو ضرور منور کرتی ہیں۔ کبھی کبھی قدرت ایسے لوگوں پر مہربان ہو جاتی ہے جو اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے اذہان و قلوب کو بھی علم و ادب کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ایسے لوگ عموما دنیا میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔جو اپنی زندگی میں دوسروں کا احساس و فکر کرتے ہیں۔ خواتین کے متعلق اکثر یہ بات لکھی گئی ہے کہ وہ طب و تعلیم کے شعبوں کے لیے موضوع تصور کی جاتی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے اندر رحم دلی ، احساس محبت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوتی ہیں۔ وہ اکثر ماں کے پیٹ سے ہی خدمت کا نوالہ لے کر پیدا ہوتی ہیں۔وہ سب رکاوٹیں عبور کر کے اپنے مقاصد کا تعین کر لیتی ہیں۔ انہیں زندگی میں وہ سرشاری اور اطمینان مل جاتا ہے جو زندگی کے اغراض و مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وکٹوریہ پیٹرک کا نام اسی جذبہ سے کشید ہے۔اگر ان کی ابتدائی زندگی کا مختصر طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے۔ان کی زندگی کا ابتدائی سفر کتنا دلچسپ اور معنی خیز ہے۔وہ 10 فروری 1944 کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں پیدا ہوئیں۔ کنڈر گارڈن سکولنگ سالویشن آرمی سکول لاہور سے ، ابتدائی تعلیم آرمی پرائمری سکول جہلم سے، مڈل گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ایبٹ آباد سے، میٹرک ڈھاکہ بورڈ مشرقی پاکستان (پرائیویٹ)، انٹرمیڈیٹ اور بی اے کنیرڈ کالج لاہور سے جبکہ ایم اے یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے پاس کیا۔ یقینا تعلیم و تربیت زندگی پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ اسی تڑپ اور لگن نے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔
وہ بیک وقت کالم نگار، مضمون نگار ، افسانہ نگار ، شاعرہ ، مبصرہ، کہانی نویس ، گیت نگار اور مترجم کے طور پر مشہور تھیں۔ ان کی پہلی غزل شمع دہلی 1960 میں شائع ہوئی۔ پاک فوج کے روزنامہ یلال میں بچوں کا صفحہ کہانیوں میں چھوٹی چھوٹی نظمیں، غزلیں اور کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔یہ سلسلہ 1959 سے 1960 تک جاری رہا۔ پھر کنیرڈ کالج میگزین "حرف آخر" میں ان کی کہانیاں نظمیں اور غزلیات شائع ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1964 سے 1965 تک شعبہ اردو کی بطور اڈیٹر فرائض سرانجام دیے۔ریڈیو پاکستان سے بیڈ ٹائم اسٹوری کے پروگرام میں ان کی کہانیاں اور بچوں کے گیت نسرین انجم بھٹی کی توسط سے نشر ہوئے۔انہوں نے موہنی حمید صاحبہ کے ساتھ بچوں کے کئی پروگرامز نشر کیے۔ وہ کئی اداروں کی بورڈ ممبر بھی رہیں۔مثلا پاکستان بائبل سوسائٹی ، لینگویج ریکارڈنگ انسٹیٹیوٹ پاکستان ، مسیحی اشاعت خانہ ، شالوم ٹو ڈے پاکستان ، لو یور نیبرز ، کیئر چینل انٹرنیشنل اور ری ڈیم کرسچن چرچ آف گاڈ پاکستان شامل ہیں۔ قلم قبیلہ سے بے پناہ محبت رکھتی تھیں۔ وہ ہمیشہ بڑوں کے ساتھ احترام اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آتی تھیں۔ اپنے مزاج میں تخلیق تحقیق اور تنقید کے فن سے واقف تھیں۔ ان کی محنت اور جذبے نے انہیں نمایاں مقام عطا کیا ہے ۔ اہل ادب کی نظر میں محترمہ وکٹوریا پیٹرک صاحبہ نے ایک اچھی ماں اور وفادار بیٹی کا کردار پیش کیا ہے۔ معاشرے میں ایک ایماندار استاد کا کردار نبھایا ہے۔ اس لیے آپ کی پہچان و کردار نے عزت، شہرت اور ناموری جیسے رتبے حاصل کیے۔ مصنفہ نے اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تخلیقی میدان میں نمایاں کام کیے ہیں۔بلکہ انہوں نے اپنی ذاتی اور گہری دلچسپی کے باعث کئی کتابیں لکھنے کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔
ان کی مطبوعہ کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
١۔ دیپ دیپ اجالا ( تعلیمی گیت )
٢۔ سلام اے وطن ( قومی گیت اور نظمیں )
٣۔ پنکھڑیاں ( بچوں کی نظمیں )
۴۔ کوئی کہکشاں تو ہو ( غزلیات اور منظومات )
جبکہ غیر مطبوعہ کتب میں
١۔ لہر لہر روشنی( مسیحی گیت )
٢۔ چاندنی دھواں دھواں (
٣۔ بال ادب ( بچوں کے لیے پنجابی نظمیں )
۴۔ سدھراں ( پنجابی غزلیں )
۵۔ کرن کن زندگی ( مسیحی گیت )
میں ذاتی طور پر ان کے کام، فن اور شخصیت سے واقف ہوں۔ان کی قابلیت کا مدح ہوں۔ وہ مسیحی گیت نگاری میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان کا مشہور گیت
" روشنی روشنی سارا عالم ہوا" نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ جسے ہر سال کرسمس کے موقع پر دنیا بھر کے چرچز میں گایا جاتا ہے۔
آپ کی شاعری کو جن گلوکاروں نے گایا۔ان میں ثمینہ زاہد، ثریا خانم،نور جہاں ، غلام علی ، اے نیر ، حامد علی ، بنجمن سسٹرز ، نینا جارج ، سائرہ نسیم ، شبنم مجید ، افشاں اور نصرت فتح علی کے نام شامل ہیں۔آپ ترجمان نگاری کے فن سے بھی خوب واقف تھی۔ انہوں نے قریبا مسیحی اشاعت خانہ کی 22 کتب کا ترجمہ کیا۔ جو ان کی لیاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الہیاتی دلچسپی کے باعث نیشنل کرسچن کالج آف ڈیونٹی اینڈ ورشپ لاہور نے آپ کو( ڈاکٹر آف ڈیونٹی) کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ آپ ایک کہانی نویس بھی تھیں۔یونیسیف کے پروجیکٹ کے لیے آپ نے مندرجہ ذیل کہانیاں لکھیں۔
١۔ آؤ کاروبار کریں
٢۔ امن کی راہیں
٣۔ پیار کے رشتے
۴۔ نیا سویرا
ان کی فنی اور اصلاحی شاعری نے کلیساء پاکستان میں بے حد شہرت پائی۔ ان کے گیتوں میں الہیاتی تصور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاعرہ کو خدا کی قربت اور رفاقت کا گہرا تجربہ تھا۔
ان کی اس بے لوث خدمت نے ان کے نام کو زبان زد کیا۔
بہت سے اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا۔مثلا ستارہ پاکستان ( پاکستان گرل گائیڈ ایسوسی ایشن ) میڈل آف میرٹ ( پاکستان گرل گائیڈ ایسوسی ایشن ) ایشیا پیسیفک ریجن لیڈرشپ ایوارڈ( یونیورسل گرل گائیڈ ایسوسی ایشن ) فاطمہ جناح گولڈ میڈل (حکومت پنجاب) لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ ( کنیرڈ کالج چرچ آف پاکستان جیز کرائسٹ ٹیلی ویژن) ویمن آف آل شیڈز ایوارڈ ( کیھتڈرل چرچ لاہور) اس کے علاوہ مختلف تنظیموں، اداروں اور چرچز سے ملنے والے ایوارڈز کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔یہ خوش آئیند بات ہے کہ کرسچن کمیونٹی میں انہیں جو مقام اور عزت ملی ہے۔ وہ علمی، ادبی، تعلیمی، علاقائی اور بین الصوبائی سطح پر بہت زیادہ ہے۔اسے ہمیشہ تاریخی، ثقافتی اور مذہبی طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ تخلیق کار کبھی نہیں مرتا۔وہ ہر دور، زمانے اور صدی میں زندہ رہتا ہے۔ میں محترمہ وکٹوریا پیٹرک صاحبہ کو ان کی لازوال خدمامت پر انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وہ 80 برس عمر پا کر بتاریخ 3 اکتوبر بروز جمعرات 2024 رات 11 بجے خداوند میں سو گئیں۔ ان کا جست خاکی گورا قبرستان لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔اس امر کے باوجود بھی ان کا کام اور فن ہمارے دلوں اور نسلوں کو اس بات کی یقین دہانی کرواتا رہے گا کہ وہ ایک عظیم استاد شاعرہ ،ادیبہ، مبصرہ، کالم نگار ، مضمون نگار ، کہانی نگار اور مترجم تھیں۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید