Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
سینٹ پال اسکول کی چالیس سالہ خدمات کا اجمالی جائزہ - فاختہ

سینٹ پال اسکول کی چالیس سالہ خدمات کا اجمالی جائزہ

شاہد ایم شاہد مضامین مطالعات: 53 پسند: 0

سینٹ پال اسکول کی چالیس سالہ خدمات کا اجمالی جائزہ
* واہ کینٹ میں سینٹ پال اسکول کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔عرصہ چالیس سال سے تعلیم و تربیت کے میدان میں نمایاں خدمات دینے والا ادارہ روشنی کا مینار بن کر علم و تربیت کی کرنیں بکھیر رہا ہے۔اسی مناسبت سے قارئین کی دلچسپی اور اس کا تاریخی پس منظر ، کارکردگی ، والدین کا اعتماد ، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا مرکز ، بہترین ماحول ، قابل فخر اساتذہ ، نظم و ضبط میں ثانی اور دیگر گوناں گوں خوبیوں کی بنا پر چالیس سالہ خدمات کا اعتراف اور انہیں زیر قلم لانا میرے لئے باعث صد افتخار ہے۔*
میرے لیے یہ بڑے استحاق کی بات ہے کہ مجھے سینٹ پال سکول کی چالیس سالہ تعلیمی خدمات کے حوالے سے لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ بنیادی طور پر تین زمانے ہیں۔ انہی زمانوں کی بدولت ماضی ،حال اور مستقبل کا تعین ہوتا ہے۔یوں تو ہر دن کی اپنی داستان اور تاریخی حیثیت ہوتی ہے۔کیونکہ دن ہفتوں میں ، ہفتے مہینوں میں ،مہینے سالوں میں اور سال صدیوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ دنیا میں دو شعبے مرکزی حیثیت و اختیار رکھتے ہیں جن کی قدر و قیمت روز اول سے تاحال کم نہیں ہوئی۔بلکہ روز بروز ان کی ضرورت و اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پہلا تعلیم و تربیت اور دوسرا صحت و آگاہی ہے۔ دونوں انسان کی بنیادی ضرورت سے لے کر کامیابی کے سفر تک ساتھ دیتے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ اس بات کا بڑی بے باکی سے پردہ چاک کرتی ہے کہ مشنری اداروں نے تعلیم و تربیت کے میدان میں دیگر درسگاہوں کے ساتھ اپنی خدمات کا لوہا منوایا ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بانی پاکستان اور مفکر پاکستان جیسی شخصیات کی تعلیم و تربیت انہی مشنری اسکولوں کے باعث ممکن ہوئی ہے۔کیونکہ تاریخ اپنی وراثت میں انمٹ واقعات ، انمول یادیں اور نسلوں کا اثاثہ ودیعت کرتی ہے اور جو قومیں تاریخ سے پیار کرتی اور اسے یاد رکھتی ہیں ان کا درخشاں مستقبل قوم کے بچے ہوتے ہیں۔ جن کی تعلیم و تربیت کے بغیر معاشرتی ، اخلاقی ، سماجی ، تہذیبی اور روحانی تعمیر و ترقی کا چراغ روشن نہیں ہو سکتا۔
زندگی مقاصد سے لبریز پھل ہے اور جب تک مقاصد کا تعین نہ کیا جائے اس وقت تک زندگی کا مقصد ادھورا رہ جاتا ہے۔یقینا سوچ و جذبہ کو امیدوں میں بدلنے کے لئے خواب و رویا دیکھنا بہت ضروری ہے اور پھر اس کی تعبیر کے لیے جستجو اور وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔
معروف ادیب سموئیل سمائلز لکھتا ہے۔
" خیال کا بیج بوو تو تم عمل کاٹو گے
عمل کا بیج بوو تو تم عادات کاٹو گے
عادات کا بیج بوو تو کردار کاٹو گے
کردار کا بیج بووتو مقدر حاصل کرو گے
ایسی ہی سوچ و عمل کے اوصاف سے لبریز شخصیت جو والہانہ محبت کے مالک جن کا نام سر شفقت حیات ہے۔انہوں نے خدا کی مرضی کو بجالاتے ہوئے ایک مکاشفاتی بھید اور خاص رویا کے تحت 1983ء میں سینٹ پال سکول کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھی۔ابتدا تو چند طلبہ سے ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اب ہزاروں کی تعداد میں تبدیل ہوگئی ہے۔
ادارہ اپنی ساکھ ، انفرادیت ، ہمہ گیریت اور نتائج میں اپنی مثال آپ ہے۔ آج ادارہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جس کو رشک و تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ دن بدن علم کی روشنی پھیلانے میں آج بھی اسی قدر سرگرم ہے جیسے ابتدائی مراحل میں تھا۔ادارے کا سٹاف محنتی ، ایماندار ، باوقار ، بااعتماد اور کوالیفائیڈ ہے۔یقینا پرنسپل سر شفقت کی محنت اور ٹیچرز کی محنت نے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آج اس ادارے کے بچے تقریبا پاکستان کے تمام اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے فارغ التحصیل بچے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاید ملک کو کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جہاں اس کے طالب علم اپنی خدمات سرانجام نہ دے رہے ہوں۔ نسل در نسل لوگ اس ادارے سے تعلیم و تربیت حاصل کرکے علم کی روشنی حاصل کر رہے ہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
اسکول طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے ہر سال یوم والدین کا انعقاد کرتا ہے جس میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں شیلڈ اور گولڈ میڈلز دیے جاتے ہیں۔خصوصا پوزیشن ہولڈر میٹرک پاس طلبا و طالبات کو میڈلز اور سرٹیفکیٹس دئیے جاتے ہیں۔تاکہ بچوں کے اندر تعلیمی تجسس وجستجو اور زیادہ بڑھے۔اس امر کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔بہترین نتائج کی حامل ٹیچرز کو حسن کارکردگی سرٹیفکیٹس اور کیش ایوارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔ مذکورہ تمام کاوشوں کا کریڈٹ ڈائریکٹر سینٹ پال ہائی اسکول سر شفقت حیات کے نام جاتا ہے، جن کی محنت ، عظمت ،دلچسپی ، لگن اور اخلاق و کردار نے آج ادارے کو نمایاں مقام بخشا ہے جو انہیں کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن کرتا ہے۔آج ان کی مسلسل جدوجہد نے انہیں ایسا عزت و وقار دیا ہے جہاں ان کا نام عوام الناس کی زبان زد ہے۔
یقینا کامیابی کی فصل کاٹنے کے لئے انتظار ، مزدور ، تعاون ، قابلیت ، ذہانت اور خدا کی مرضی کا شامل ہونا از حد ضروری ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں ان پورے چالیس سالوں میں خدا کی شفقت اور محبت ان سے جدا نہیں ہوئی بلکہ دن بدن برکات و فضائل کا دروازہ کھلتا گیا۔ان کی حیات کرشماتی پر صحت و صداقت کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر

درس و تدریس سے جڑے ہوئے اس عظیم شخص نے واہ کینٹ ٹیکسلا اور گردو نواح میں رہائش پذیر بچوں کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔اس امر کے ساتھ ساتھ میں ان کی شریک حیات مسز کنول شفقت کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جن کے ساتھ اور سایہ نے ادارے کی ساکھ میں اضافہ کیا۔ ان کی لگن محنت اور پالیسی نے ٹیچرز اور طلبہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت نتائج کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس منفرد اور باوقار ادارے سے اب تک ہزاروں طلبا و طالبات مستفید ہو چکے ہیں اور سینکڑوں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔میری دلی دعا ہے سینٹ پال سکول افق پر منڈلاتے ہوئے ستارے کی طرح نظر آئے۔
آخر میں شاعر مجروح سلطان پوری کے اس شعر سے اجازت چاہتا ہوں۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

شاہد ایم شاہد ( واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید