Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
سید اکمل حسین ترمذی، لندن - فاختہ

سید اکمل حسین ترمذی، لندن

ثمینہ گل وفا صریرِ خامہ مطالعات: 54 پسند: 0

ایک اُبھرتی شاعرہ
سیّد اکمل حسین ترمذی لندن
غزل اردو شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ تمام اصناف نظم میں غزل کونمایاں مقام حاصل ہے۔ مطلع ’مقطع‘ قافیہ و ردیف کی بنت اپنی ابتدا سے آخرتک زندگی کے مسائل کے اظہار کا ذریعہ مانی جاتی ہے۔ ابتداء میں گل و بلبل ہجر ، و وصال اور تیور محبوب کو بطریق احسن پیش کیا جاتا ہے ۔ غزل کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ غزل کے کم سے کم اشعار پانچ اور زیادہ سے زیادہ اکیس ہوتے ہیں ’اعداد کے عدد طاق ہونا شرط ”۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق“ غزل اسم مونث :معشوق یا اپنے محبوب کے ساتھ کھیلنا‘ عورتوں کے ساتھ بات چیت وفا و محبت میں ملوث ہوکر ’عورتوں کے عشق کا ذکر ”۔
غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ مگر عربی لغت ”المنجد“ میں اس کے معنی کچھ اس یوں لکھے گئے کہ: ”عورتوں سے باتیں کرنا ’عورتوں کی خوبصورتی اور جمال کی تعریف کرنا۔ ان سے عشق بازی کرنا۔غزل کی سب سے بڑی پہچان اس کی شکل و ہیئت بن گئی ہے۔ موضوع کی کوئی پابندی اس میں دیکھنے میں نہیں آتی۔ غزل کے لیے قافیہ لازمی ہے اور ردیف لازمی نہیں۔ تاہم ردیف آہنگ و موسیقیت پیدا کرنے کے علاوہ مطلب سمجھانے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ غزل کے تمام اشعار میں بحر کی پابندی بھی لازمی ہوتی ہے تاہم غزل کا ہر شعر منفرد اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور الگ خیال کا مالک ہوتا ہے۔
اس تمام تمہید کا مقصد اور حوالہ پیش کرنا آج کی اس تحیریر میں ایک غزل گو شاعرہ جو اپنا تخلص وفا کرتی ہیں انکے پہلے مجموعے کے حوالے سے اظہار کرنا ہے
آج جہاں پر شاعری کا سرقہ عام ہے اور ایک سطحی قسم کا شخص بھی اپنے آپ کو کسی گم نام شاعر یاشاعرہ کے شعر میں رد بدل کے ساتھ اپنے نام کے ساتھ غزل لکھ کر مشاعروں میں دید دلیری سے نظر آتا ہے جس کو غزل اوررباعی کا فرق تک معلوم نہیں ۔
جہاں تک ایبوں شاعروں افسانہ نویسوں اور ڈرامہ نگاروں کا ایک قلمی رشتہ ہے وہ اپنے رجحانات اور میلانات کے علاوہ قدرتی صلاحیت پر پھروسہ کر کے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ثمینہ گِل وفابھی ایسے ہی قبیلےکی کا ایک ماہر فرد ہیں
میرا تعارف ان سے آن لائن روزنامہ عالمی اخبار کے ایڈیٹر چیف اور محقق نقاد، صحافی اور شاعر صفدر ھمٰدانی نے کروایا مجھے یہ کہنے میں کوجھجک نہیں کہ ان جیسی شخصیت نے شعبہ صحافت اور قلم قبیلہ میں میری اتبدائی تربیت کی اور ان کے کہنے پر میں ان کے روزنامہ میں شامل ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
اس شاعرہ کا شجرہ بھی ان ہی سے ملتا ہے وہ ایک انتہائی خوددار اور باصلاحیت صنف ناز ک ہیں ایک خوش مزاج اور خوش اخلاق خوش لباس اور خودداری کی دولت سے مالامال شخصیت کو یک جا کر کے کوئی ایک شکل دی جائے اور ان کے چاندی کے اوراق مزیں کو کر اُنکر قلم کوسہنری الفاظ میں غزل کی صورت میں ڈھالا جائے تو ایک شاعرہ ثمینہ گِل وفا کا ہنر غزلیات کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔شعری نشستوں میں خوب شرکت فرماتی ہیں اگر اِن کے بارے میں لکھوں تو یہ بے جا نہ ہو گا یہ سورج اپنی تمام ترروشنی اور صلاحیتوں سے سجا کر اس دُنیا میں بھیجا گیا ہے اور وہ اس کا پوری سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ استعمال کرتی ہیں اور شاعری کی دُنیا میں وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جو ان کواپنی خودداری اورمضبوط کلام کہنے کی وجہ سے ملے گا۔ بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ اپنی قلندرانہ طبیعت اور خودار فطرت کے سبب وقت کے منفی تقاضوں کے ساتھ سمجھوتہ بھی نہیں کرتی ۔
جدید اور منفرد لب لہجہ کی بہترین شاعرہ کی غزلیات کا پہلامجموعہ منظر عام پر آ رہا ہے امید کی جاتی ہے کہ قارئین اردو ادب اس کو پسند فرمائیں گے ان سے اُمید کی جاتی ہے کہ آنے والے کل میں یہ بھی ایک اپنی شاعری کا ہنر دوسروں میں بانٹتی ہوئی نظر آئیں گی اور کئی شعری مجموعوں کی مالکہ ہوں گی ۔اور ان کا شمار بھی بزرگ شعرا کی فہرست میں ہو گا۔
آخر میں ایک مصرعہ ان کی نذر کرتے ہوئے ان کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔۔
وفاؔ کو تو یہاں کوئی نہیں پہچانتا
اپنے عہد کی گڈری میں لعل ہے یہ تو
سیّد اکمل حسین ترمذی۔۔۔۔۔ لندن
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید