Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
یوسف رند، اٹلی - فاختہ

یوسف رند، اٹلی

ثمینہ گل وفا صریرِ خامہ مطالعات: 52 پسند: 0

کھُلے دریچوں کی شاعرہ
یوسف رند۔۔اٹلی
ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ انسان جب اپنے آپ سے جھگڑتا ہے تو شاعری کرتا ہے اور جب دوسروں کے ساتھ جھگڑتا ہے تو خطابت کرتا ہے ،یہ نفسیاتی تلازما صحیح مگر لفظ و معنی پر بنیاد رکھتا ہے ،اس معرکہ میں جو مقام جوش اور تہور کا ہے وہ لفظ و معنی میں فصاحت و بلاغت کا ہے اور حروف معنی بھی اسی رہگزر سے جڑے ہوئے ہیں ، کتاب معرفت کی جتنی بھی خواندگی تعریف کر لی جائے مگر اس کے اعلی ترین اسباق میں ضدوں کے تصادم میں سے نکلتی ہوئی زندگی اور اس زندگی سے جڑی عرفان الہی ہی اصل زندگی قرار پاتی ہے۔ ایسا شخص وہی ہو سکتا ہے جو ضمیر شب کے حجرہ تدریس میں پہلی صفوں کا طالب علم ہو اور ایسا شخص دنیا کی انکھ کو صحیفہ معرفت پڑھ سکتا ہے تو جن آنکھوں سے مشاہدات کی حقی تصویر کھینچنے کی صلاحیت نہ پیدا ہو ان آنکھوں کی پتلیوں میں بصارت کا تلازمہ تو بظاہر صحیح ہوتا ہے مگر ایسوں کے دل آشوبِ آگہی کی محسنات اور رعایت حق کے اصولوں کی حفاظت سے خالی ہو جاتے ہیں۔
لفظ طاقت ہے معنی راتیں امید مگر وجدان معیت اور عرفان کی حضوریت کے بغیر آسمان حقیقت کے تمبو کی ایک رسی بھی استوار اور مضبوط نہیں ہو پاتی۔
عقیدے کے بغیر زندگی کی حتمی تاریخ مرتب نہیں ہو سکتی زندگی کی تجریدیت کھولنے کے ارادے سے جو آ گے بڑھے وہ علمی نشانات اور وجدانی ارتسامت کو اپنے ساتھ ضبط فہم کرتے رہتے ہیں کبھی وہ اشعار قرار پائے کبھی ادب کبھی جمالیات کے فنون کبھی فلسفہ کبھی وجودی تصوف کی نئی شرحیں مگر قلب وفاکے فکری آئینے میں زندگی جس انداز میں بھی اپنا چہرہ دکھلاتی ہے وہ اس کی چھب اور اس کی غزالی چال دونوں کو ایک ہی بصارت کی مشق سخن سے دیکھ لیتا ہے یہ ایک وجود فلسفی کی آنکھ ہے مگرزبان خطابت میں ڈھلی ہوئی ہے دل شعور شعر سے آراستہ الفاظ کی بنت سرنامہ الہام ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ لفظ معنی اکثر ادیبوں کی معیت میں چلنے سے انکار کر دیتے ہیں جب ان کو آشوب زندگی گھیر لیتا ہے مگر قلب کے ہاں ایسی کوئی مشکل نہیں ۔
انسان کو زندگی کی اس وقت سمجھ آئے گی جب اسے یقین ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور اب تک اس نے کیا کیا ہے اس نے کہاں جانا تھا کہاں جا رہا ہے کہاں پہنچ رہا ہے کیا اس کا انتخاب وہی ہے جو اس کا خالق چاہتا ہے تو پھر ہی زندگی مقصد کے ہمسفر ہوگی قلب کی صورت میں روحانی خطیب کا موثر عصا کس طرح دریائے معنی میں ضرب مار کر راستہ بناتا ہے
وفا کی شاعری کمال کی شاعری ہے اور کمال دکھانے کی چیز ہے کیا آپ لفظ و معنی کا ثروت مندانہ دسترخوان بچھا کرلوگوں پر بے معنی تاثیر ڈالنا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہمارے ہاں حرف ومعانی کی کیسی ڈشیں پکی ہیں کتنے خوبصورت پکوان ہیں برتن اور کراکری کتنی مہنگی نازک قابل استفادہ ہیں جو لوگ شاعری ماہیت میں ایسا عمل دخل سمجھتے وہ مثنوی تو لکھ سکتے ہیں منظوم داستان گوئی تو کر سکتے ہیں مگر وہ حقیقی اور وجدانی شاعری نہیں کر سکتے وہ شاعری دراصل اندر کے دکھ سکھ کا وہ اظہار ہے جو صرف علامات اور کتابوں تک محدود ہی نہیں رہتا بلکہ ایک آگ کی طرح لہو کی نالیوں میں سیال کی طرح بہتا رہتا ہے ، احساس کا یہ وجدان جب لہو کی نالیوں میں چلتا ہے تو ذہن اور دل تک آتے آتے آخری نقطے تک شاعر اور پور پور جل اٹھتا ہے اور جب وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی ان چنگاریوں اور خاکستری مٹی کو جمع کرتا ہے تو شاعری کا ایک دیوان تو کم از کم امر ہو جاتا ہےوفا کی نظموں اور غزلوں کا یہ مجموعہ حساسیت میں گندھی شاعری اس کا اختصاص ہے اور اردو زبان جو کہ اس کی ماں بولی ہے وہ اس میں اتنی سہولت سے بات کرتی ہیں جتنا کوئی لاڈلا بچہ اپنی ماں سے، وفا کینیڈا میں رہنے کے باوجود جب آپ پڑھیں سانس کی مچان بنا کرزندگی کے رویوں اور کیفیات کی گھات میں نکلتی ہے تو ان کی ماں بولی اردو ان کے قلم کو چوم لیتی ہے ، وفا کی شاعرانہ قوت تجربہ بہت شاندار ہے ۔ وہ ادھوری شاعرہ نہیں پوری بات پوری ریاضت اور پورے فن کے ساتھ کرنا جانتی ہیں ان کی نظموں اور غزلوں میں پیار کے میٹھے بول سنائی دیتے ہیں اور اپنی اور آبنائے جنس کے رویوں کے جنگل میں جن میں کبھی کبھی بہت اندھیرا ہو جاتا ہے اور کوئی پرندوں کے غول کے غول افق پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو وفا کو انسانی رویوں کے جنگل میں پرندوں کے گھونسلے ملتے ہیں اور کبھی ٹوٹے پھوٹے اور کبھی سوکھی ہوئی جھیل اور خون کے دھبے جراتوں اور تماشوں کو شعری اہنگ بنا کر وفا اس جنگل میں چلتی دکھائی دیتی ہے کبھی کیفیت کے ذریعے سے اس پر بے خودی کا عالم چھا جاتا ہے اور کبھی مہر گواہی کا نشے کی کوئی بھی کیفیت ہو اگر وہ ائینہ ہو کر عکس درس نہیں بولے گا تو مئے ارغوانی کا نشہ کہلائے گا مئے بے خودی کا عالم جب چھا جاتا ہے تو وہ کونے میں لگ کر ساز بن جاتا ہے جس کو راستہ آگے نہیں جانے دیتا وفا کی شاعری آبدار موتیوں کی چھنچھناہٹ ہے جس کی آواز بھی سماعت کو مرغوب ہے اور جس کا جلوہ بھی خیرہ کنی کی داستان ازبر کیے ہوئےہے جس طرح موسیقی کی دنیا میں نت نئے گلوکار فنی بدعتیں کر کے کلاسیکل روایت کو زخمی کر رہے ہیں مگر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ ان کو مستقل سند قبولیت نہیں ملتی سدا بہاری کا چمن وفا کے لیے تمام دریچے کھول دیتا ھےاسی طرح وفا بھی اس فن سے زرخیز زمین میں اپنی جگہ بناتی ہے۔ وفا کو بھی توفیق خداوندی حاصل ہے ان کی غزلیں روایات کی شالیں اوڑھے تہذیب کے دوپٹے لیے لفظ معنی کی زربافیوں کی عجیب عروسی لحاظ داری میں جلوہ کنا ہو رہی ہے ان غزلوں میں ان کی مذہبی اور عقیدہ برداری بھی شامل بھی ہے، ان کی شاعری نئے لکھنے والوں کے لیے تدریس یا سطح پر ایک مکتب کی حیثیت رکھتی ہے ،وفا اپنی خاندانی روایت کے چراغوں کی روشنی اپنے اخلاق کی طبیعات کو بھی جگہ جگہ پیش کرتی ہے تمدن معاشرت بھی ان کے ہاں نمایاں ہے
وفا کی شاعری پڑھ کراس بات کا اندازہ ہوتا ھے کہ وہ اپنے آسودہ نظریات ،شریف روایات فن شاعری میں بہت بلند قامت نظر آتی ہیں ۔
میں وفا کی شعری مواجی اور پرواز کے لیے دعا گو ھوں
دعاگویوسف رند، اٹلی
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید