Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
مکاشفہ - فاختہ

مکاشفہ

نذیر قیصر نظمیں مطالعات: 23 پسند: 0

مکاشفہ
کئی بار میں نے زمیں کا لبادہ اُتارا ہے
اور، آب و گِل کی حدوں سے گزر کر
تری جسستجو کی ہے
رُوح و بدن کی اذیت سہی ہے
کئی بار مَیں نے ہوس کے ہیولوں کا
اندھا تعاقب کیا ہے
خلاؤں کا نوحہ بنا ہُوں
کئی بار مَیں نے ترے رُوبرو
تیرے قدموں میں
اپنی سِسکتی ہوئی جان پانی کی طرح اُنڈیلی ہے
اور، خاک سے تیری دُوری کا صدمہ کہا ہے
کئی بار مَیں نے تُجھے
اپنے احساس میں جھانک کر پا لیا ہے
کئی بار ُتو نے مجھے
خاک کی راہ پر آ لیا ہے
کئی بار مَیں نے تُجھے شہرِ شب کی
فصیلوں پہ دیکھا ہے ، آواز دی ہے
کئی بار مَیں نے تِری چاپ دِل میں سُنی ہے
کئی بار تُو نے مُجھے خشکیوں، پانیوں کے
کٹھن فاصلوں کے حوالے کیا ہے
کئی بار مَیں نے تِرا ہاتھ
کندھے پر محسوس کرکے
کڑی منزلوں کا سفر طے کیا ہے
کئی بار مَیں نے تِرا نام
سبزہ و گُل، رنگ و نکہت کے پھیلے ہُوئے ہاتھ پر
اپنے بوسے کی صُورت لکھا ہے
کہا ہے!
جو تُو ہے تو حُسنِ شب و روز ہے
کئی بار مَیں نے صلیبِ مہ و سال پر خُود کو کھینچا ہے
اور، موسموں کے صفحوں پر
لہُو سے شہادت لکھی ہے
کہا ہے!
زمیں پر سے جو حرفِ سر سبز کاٹا گیا ہے
ابد کا نِشاں ہے
۲
زمیں بے کراں ہے
میں جس شہر میں ہُوں
زمینوں پہ اِس کے سوا اور بھی شہر آباد ہیں
اَن گنت بستیاں، اَن گنت باغ و بن
اَن گنت چہرے اور آئینے
میری آنکھوں کی حد میں نہیں
اَن گنت منزلیں، اَن گنت فاصلے
میرے قدموں کی زد میں نہیں
دیکھنے اور سُننے کی، چھُونے کی خواہش
مقدس متاعِ سفر ہے
مگر رائیگاں ہے
زمیں بے کراں ہے
زمیں بے کراں ہے!!
۳
ہوا تیز چلتی ہے
پانی میں عکس اور سائے
لمحہ بہ لمحہ
گُزرے زمانوں کی
گم گشتہ شکلوں کی صُورت
ہوا تیز چلتی ہے
شاموں کی، صبحوں کی دہلیز پر
کوئی نقش و صدا
کوئی چہرہ،
کوئی عکس و سایہ
ٹھہرتا نہیں،
زندگی وقت کی راہگذاروں میں
بے دست و پا سِلسلہ ہے۔
ہوا تیز چلتی ہے
رات اوردِن کے،
سفید اور کالے کبُوتر،
اجنبی منزلوں کی طرف،
اُڑتے جاتے ہیں۔
لمحوں کی پوشاک پہنے
اور، مَیں ان کے پَر پھڑپھڑانے کی
آواز سنتا ہوں۔
کہتا ہوں!!
کوئی مجھے لفظ دے
تاکہ مَیں اُڑتے لمحوں کی پوشاک پر
اپنی خلوت کا دُکھ لکھ سکوں۔
ہَوا تیز چلتی ہے۔
ٹھہری ہوئی شب کے گنبد میں
آوازِ بے لفظ کی سنسناہٹ ہے
مَیں آیتِ روز و شب کے
معانی کا مشتاق ہوں
دھُند اور خامشی کا سفر
عرش سے فرش تک پھیل کر،
رُک گیا ہے۔
۴
ڈرو اس وقت سے
جب آسمانوں سے
ستارے ٹوٹ کر مٹی میں گر جائیں گے۔
دن آئے گا، لیکن رات کی مانند ہو گا
ڈرو اس وقت سے
جب آسماں مکتوب کی صُورت لپیٹے جائیں
اور، جب دھُوپ تہہ کی جائے
سُورج چاند کے پیچھے ہو
سر کے بال
پیروں کے لئے زنجیریں ہو جائیں
گلوں میں تختیاں ہوں
اور چوتھی مہر کھولی جائے
اُفق سے زرد گھوڑا
بے صدا قدموں سے نِکلے
اور ، غبارِ کہکشاں اس کے تعاقب میں اُڑے
سونے کے شمعدان سے آنکھیں لپٹ جائیں
ستارے ہاتھ کی محراب پر اُتریں
زمیں کی اُنگلیوں سے لفظ
کچے پھل کی صُورت ٹُوٹ کر
پرچھائیں کے قدموں میں گِر جائیں۔
ڈرو اُس وقت سے
جب آگ اپنا ساتواں پیالہ ہَوا کے تخت پر اُلٹے
کرن دہلیز پر ہو
اور، سُورج خُون ہو جائے
۵
قسم ہے آئینے کی،
اور صُورت کی
قسم ہے صبح کی
اور رات کی
جب چاند، سورج سے جُدا ہو
قسم ہے امن والے شہر کی
اور تیغ کی،
جب خُون میں ڈوبے
قسم ہے، خواب میں ہنستے ہوئے بچے کے چہرے کی
قسم ہے جسم کی
اور جسم کی پرچھائیں
جب دھوپ ڈھل جائے
قسم ہے ابر کی،
اور لفظ کی،
جب ہونٹ پیاسے ہوں
ہوا نیزے کی اُنگلی پر قدم رکھے
قسم ہے شاخ کی
اور ، شاخ پر بیٹھے پرندے کی
گھٹا جب آسماں کا بادباں کھولے
قسم ہے آسمانوں کی
زمینوں کی،
سفر جب رات کا سُورج کی جانب ہو
کرن جب گنبدوں پر
دائرے بنتی ہوئی نکلے
۔۔۔
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید